تجدید زندگی/عمل؛ تحریر…امیر جان حقانی

اشتہارات

میرا معمول ہے کتابی سلیبس کے ساتھ اپنے طلبہ کی کونسلنگ بھی کرتا ہوں یہ معمول سال بھر رہتا ہے انہیں زندگی کے اصل چیلنجز سے نمٹنے کا درس بھی دیتا اور مسائل کو نعمت کبری سمجھ کر ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا لیکچر بھی دیتا ہوں اس کی گواہی خود میرے قدیم و جدید طلبہ بھی دیں گے۔ آج کل کالج میں نئے سیشن کا آغاز ہے،کئی ایک لیکچر کیریئر کونسلنگ اور گائیڈ لائنز پر دے چکا ہوں،میرے مطابق مخصوص کردہ سلیبس سے زندگی کا اصل سلیبس /عملی زندگی بہت اہم ہے۔ آج اپنے طلبہ سے تجدید زندگی پر گفتگو کی، اپنی گفتگو کو پانچ عنوانات پر نمٹا دیا اور ہر عنوان کی مثال کیساتھ تشریح بھی کردی یہاں انتہائی اختصار سے عرض کیے دیتا ہوں۔
1۔جبلت/فطرت انسانی؛ یعنی دنیا میں واحد مخلوق حضرت انسان ہے جس کی جبلت ہے کہ وہ تجدید پسند ہے۔زندگی/لائف اسٹائل کو لاکھوں نت نئے طریقوں اور اطوار میں بدل ڈالا ہے،اللہ کی کوئی اور مخلوق ایسا نہ کرسکی۔
2۔مسائل/ مشکلات نعمت کبریٰ ہیں؛یہ انسان ہی کی فطرت ہے کہ وہ اپنی مشکلات اور مسائل کا حل نکال لیتا ہے،اللہ کی لاکھوں مخلوقات ایک خاص جبلت لے کر پیدا ہوئی ہیں،روز پیدائش سے لے کر آج تک اس میں ترقی نہ کرسکی،گدھا ہزاروں سال پہلے اپنی جسمانی خارش دور کرنے کے لیے مٹی میں الٹ پلٹ ہوتا تھا اور آج بھی یہی کررہا ہے جبکہ انسان نے ہزاروں لاکھوں بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے،امریکا کا گدھا ہو یا گلگت استور کا گدھا، وہ وہی مخصوص کیفیت سے ترقی نہ کرسکا،اپنی کسی بھی مشکل کا حل نکالنے میں ناکام ہے جبکہ انسان نے ہر مسئلے کا حال نکال ہی لیا ہے اور مزید بہتری کے لیے عازم ہے۔
3۔عزم و ارادہ اور قوت فیصلہ؛عزم و ارادہ بھی واحد انسان کی ملکیت ہے،قوت فیصلہ بھی حضرت انسان کا خاصہ ہے،اسی عزم و ارادہ اور قوت فیصلہ سے انسان نے ہواؤں پر اُڑنا سیکھا، لوہے کو اُڑا کر خود اس پر سوار ہوا اور ستاروں پر کمنڈ ڈالا،بس اتنی سی بات ہے کہ ”میں کرسکتا ہوں ” کو اپنا اصول بنا لیا جائے،اپنی زندگی سے T کو ہمیشہ کے لیے ڈیلیٹ کی جائے یعنی I Can not کی بجائے I Can کو فارمولا زندگی بنایا جائے۔
4۔ آج کے نوجوان کا مسئلہ؛ آج کے نوجوانوں / طلبہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ٹارگٹ کا علم نہیں،ان میں سے ہر ایک کو اللہ نے ایک خاص کام/ مقصد کے لیے پیدا کیا ہے،یہ نہیں ہوسکتا کہ سب کو یکساں صلاحیتوں کے ساتھ یکساں کام کے لیے پیدا کیا ہو۔ اربوں انسانوں کے انگوٹھے کی لکیریں یکساں نہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر انسان کو بالکل ایک جیسا کام کے لیے پیدا کیا ہو(اللہ کی عبادت والی بات الگ ہے).۔ہر ایک کا الگ راستہ ہے، ہر ایک کی منزل الگ ہے،ہر ایک کا ذوق الگ ہے.،ہر ایک کی صلاحیتیں الگ ہیں، جس دن جس نوجوان کو یہ معلوم ہوا گویا اس دن اس نے کامیابی کا آدھا راستہ طے کرلیا باقی کام تھوڑی محنت اور ایمانداری سے ہوجاتا ہے۔
5۔ اسلام سب سے بڑا تجدیدی دین ہے؛اسلام سب سے بڑا تجدیدی دین ہے۔ تمام ادیان سابقہ کی تجدید کی ہے،اسلام نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے،آج بھی توبہ کے ذریعے ہر انسان اپنی زندگی کی تجدید اور اپنے کام/اعمال کی تجدید کرکے کامیابی سمیٹ سکتا ہے۔
عزیز طلبہ!آپ بھی اسلام کے اس تجدیدی عمل و حکم کو اپناتے ہوئے اپنی سابق ناکامیوں اور کمزوریوں کی تلافی کرکے آئندہ کے چھ سال،جو زندگی کے سب سے حسین و جمیل سال ہیں،میں تجدید کرکے کامیابی کی K2 سَر کر سکتے ہیں۔سو آج سے تجدید عمل کرکے پختہ فیصلہ کریں کہ اگلے چھ سال میں آپ نے کہاں پہنچنا ہے۔