مفکر اسلام مولانامفتی محمود اور تحفظ ختم نبوت/تحریر:حافظ مومن خان عثمانی

اشتہارات

مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک عظیم انسان تھے جنہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایاتھا،1942ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ مختلف مدراس میں درس وتدریس سے منسلک رہے،1951 میں مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں بطور مدرس آپ کا تقررہوا، 1955 میں آپ مدرسہ قاسم العلوم میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔1956میں مولانا مفتی محمود ؒکی تجویز،جدجہد اور ملک بھر کے علماء سے رابطوں کے بعد ملتان میں جمعیت علماء اسلام کے نشاۃ ثانیہ کا فیصلہ ہو ا،جس کے آپ نائب امیر منتخب ہوئے۔1962ء میں آپ ڈیرہ اسماعیل خان کی قومی اسمبلی کی نشست سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔1968 میں آپ کل پاکستان جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ناظم عمومی کے منصب پر فائزہوئے 1970کے عام انتخابات میں آپ دوبارہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔یکم مئی 1972ء نے آپ نے صوبہ (سرحد) خیبرپختون خواکے وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا اور ساڑھے نوماہ تک اس منصب پر فائزرہے۔1973ء کے آئین کی تدوین وتشکیل میں اور اس میں اسلامی دفعات کی شمولیت میں آپ نے بہت بڑا کردار اداکیا۔تحریک ختم نبوت میں آپ کاکلیدی کردار رہاہے،پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مفتی محمودؒ نے سب سے پہلے جس تحریک میں حصہ لیا وہ تحریک ختم نبوت 1953ء ہے۔اس مقدس تحریک میں ہزاروں علماء ومشائخ اور لاکھوں عوام کے شانہ بشانہ ہمہ قسم کے آلام ومصائب کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے مفتی صاحب ؒ نے قائدانہ کردار اداکیا۔آپ نے ناموس رسالت مآب ﷺ کے تحفظ کی خاطر قید وبندکی صعوبتیں برداشت کیں،لیکن آپ کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔اس تحریک میں مفتی صاحبؒ کو ایک سال قید کی سزاملی،آپ نے ملتان جیل میں رکھا گیا۔تقریباً سات ماہ آپ جیل میں پابندسلاسل رہے۔جب 1974ء کی تحریک ختم نبوت چلی تو اس وقت وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو تھے۔انہوں نے اعلان کیا کہ قادیانی مسئلہ کو قومی اسمبلی میں فیصلہ کے لئے پیش کریں گے۔جو قومی اسمبلی کے اراکین،آزادانہ منصفانہ اور جمہوری فیصلہ کریں گے۔وہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔یہ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ قادیانی جماعت نے وزیر اعظم پاکستان اور قومی اسمبلی کے جنرل سیکرٹری کودرخواست بھجوائی کہ اسمبلی میں ہمارے عقائد پر بحث ہونا ہے تو ہمیں بھی قومی اسمبلی میں پیش ہونے کا موقع دیاجائے۔چناچہ وزیراعظم پاکستان نے قائد حزب اختلاف،مفکر اسلام مولانامفتی محمود ؒسے مشاورت کے بعد قادیانی ولاہوری دونوں گروہوں کے سربراہان کو ان کی درخواست پر قومی اسمبلی میں آکر اپناموقف پیش کرنے کی اجازت دے دی۔اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان تھے۔وہ قومی اسمبلی کے اس خصوصی کمیٹی کے بھی چیئرمین قرارپائے،چنانچہ 30/جون 1974ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایاگیاحزب اختلاف کے 22/ارکان نے مفکراسلام مولانامفتی محمودکی قیادت میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردینے کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اور اس میں قومی اسمبلی کو”خصوصی کمیٹی برائے بحث قادیانی ایشو“ قراردینے کا فیصلہ ہوا۔ قادیانی جماعت کے تیسرے سربراہ مرزاناصر احمداور لاہوری گروپ کے لاٹ پادری صدرالدین لاہوری،مسعودبیگ لاہوری اور عبدالمنان لاہوری پیش ہوئے جبکہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار تھے۔چنانچہ طے ہوا کہ تمام قومی اسمبلی کے اراکین جو خصوصی کمیٹی کے بھی اراکین قرارپائے ہیں،وہ قادیانی،لاہوری گروپ کے قائدین سے قادیانی دھرم کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔لیکن وہ تمام سوالات اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ذریعہ ہوں گے۔ 5اگست 1974ء بروز پیر صبح دس بجے قومی اسمبلی کے ہال واقع پاکستان سٹیٹ بینک اسلام آبادمیں مرزاناصر پر جرح کا آغازہوا۔5اگست سے لے کر 10اگست تک 6/دن اور پھر 20اگست سے لے کر 24اگست تک 5/دن…کل گیارہ دن قادیانی گروہ کے چیف مرزاناصر پر جرح ہوئی۔27اور 28اگست 2/دن….صدرلدین،عبدلمنان اور مرزامسعود بیگ لاہوری ھروپ کے نمائندوں پر جرح ہوئی کل تیرہ دن قادیانی ولاہوری گروپ کے نمائندوں پر جرح مکمل ہوئی۔قادیانی گروپ کے مرزاناصر احمد نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں 5اگست سے پہلے اپنابیان پڑھاتھا۔قادیانی گروپ کے لیڈر نے قومی اسمبلی کے ہر رکن کو اس کی ایک ایک مطبوعہ کاپی دی تھی۔اس لئے تمام اراکین نے اس کا مطالعہ کرلیا۔کل جماعتی مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ملت اسلامیہ کا قادیانی فتنہ کے خلاف موقف پیش کرنا تھا۔چنانچہ مرکزی مجلس عمل کے سربراہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدیوسف بنوری نے راولپنڈی میں ڈیرہ جمالیا۔پارک ہوٹل میں آپ کا قیام طے ہوا۔دفترمرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی لائبریری سے قادیانیت کی کتب اور اخبارات کا ایک زخیرہ راولپنڈی منتقل کیا گیا۔قادیانی فتنہ سے متعلق مذہبی بحث کو لکھنے کے لئے شیخ الاسلام مولانامحمدتقی عثمانی زیدمجدہم کو اور سیاسی بحث لکھنے کے لئے مولاناسمیع الحق شہید کوراولپنڈی بلالیاگیا۔حضرت مولانا محمدتقی عثمانی کے تعاون کے لئے فاتح قادیان مولانا محمدحیاتؒ اور مولانا عبدالرحیم اشعر ؒکے ذمہ حوالجات مہیاکرنے کاکام لگایاگیا۔قادیانی فتنہ کے متعلق سیاسی بحث لکھنے کے لئے حوالجات مہیا کرنے کاکام حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ کے ذمہ لگایاگیا۔دن بھر خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مفکر اسلام مولانامفتی محمود ؒ،مولانا شاہ احمدنورانی ؒ،فخرقوم چوہدری ظہورالہی ؒ،جنا ب عزت مآب پروفیسر غفور احمدؒ شریک ہوتے رات کو حضرت شیخ بنوریؒ کے ہاں یہ سب حضرات یا جو فارغ ہوتے تشریف لاتے۔البتہ حضرت مفتی صاحب ؒبہر حال ہرروزتشریف لاتے۔دن بھر محضرنامہ کا جتناحصہ تیار ہوجاتا وہ سنتے۔حضرت شیخ بنوریؒ کے حکم پر حضرت پیرطریقت مولانا سید نفیس الحسینی اؒپنے کاتب شاگردوں کی ٹیم کے کے ہمراہ راولپنڈی تشریف لائے جو حصہ محضرنامہ کا تیار ہوجاتا وہ حضرت سید نفیس الحسینی ؒکے سپردکردیاجاتا۔وہ اس کی کتابت کراتے۔28اگست کو لاہوری گروپ پر جرح مکمل ہوئی۔اگلے دن 29/اگست (ملت اسلامیہ کا موقف جو پہلے لکھاجاچکا تھا)کو حضرت مفکر اسلام مولانامفتی محمود ؒنے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں پڑھنا شروع کیا 29،30 اگست کو حضرت مولانا مفتی محمود ؒنے اپنابیان مکمل کیا جو ملت اسلامیہ کا موقف اور چار ضمیمہ جات پر مشتمل تھا ضمیمہ نمبر۱،فیصلہ مقدمہ بھاولپور،ضمیمہ نمبر ۲،فیصلہ مقدمہ راولپنڈی،ضمیمہ نمبر ۳ فیصلہ مقدمہ جیمس آباد،ضمیمہ نمبر ۴ فیصلہ مقدمہ جی ڈی کھوسلہ گورداسپور۔یہ تمام مسودہ حضرت مفتی صاحب نے دودن میں مکمل فرمایا۔مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ایم این اے نے علیحدہ محضرنامہ تیارکیا تھا،جسے حضرت مولانا عبدالحکیمؒ ایم این اے نے30 اگست کے اجلاس کے آخری حصہ میں پڑھناشروع کیا 31 اگست کے اجلاس کے اختتام تک مکمل کیا۔2اور3ستمبر ممبرانِ قومی اسمبلی نے اپنے آراء کا اظہار کیا۔5ستمبر کو پھر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔جناب چوہدری محمدحنیف خان،ارشاداحمدخان،ملک محمدسلیمان،جناب عبدالحمید جتوئی،ملک محمدجعفر،ڈاکٹر غلام حسین،چوہدری غلام رسول تارڑ، احمد رضاخان قصوری کے قادیانی مسئلہ پر بیانات ہوئے اس کے بعد جناب یحییٰ بختیار اٹارنی جنرل نے بحث کو سمیٹناشروع کیا۔6ستمبر ممبران قومی اسمبلی اور جناب یحییٰ بختیار کے بیانات وبحث اختتام کو پہنچی۔7 ستمبر کو بھی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ممبران نے بحث میں حصہ لیا۔5/اگست سے 7 ستمبر تک مہینہ بھر سے زائد کے عرصہ میں اسمبلی کے اس مسئلہ پر کارکردگی کے کل 21دن ہیں۔7 ستمبرکے اجلاس میں قومی اسمبلی نے قادیانی اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم اقلیت قراردے دیا۔قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمود جب اسمبلی ہاؤس سے باہر نکلے تو سیدھے قائد تحریک ختم نبوت شیخ الاسلام حضرت مولاناسید محمدیوسف بنوری ؒکی رہائش گاہ پر آگئے۔ وہاں حضرت مفتی صاحب کا بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ حضرت مفتی صاحب ؒپہنچے تو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ مصلے پر سجدہ ریز تھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے، آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ مفتی صاحب تشریف لائے اور انہوں نے آواز دی۔ ”حضرت! اللہ پاک کا شکر ہے، ہمارا مطالبہ مان لیا گیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے۔“ یکم مئی 1972ء کو مفکر اسلام مولانامفتی محمود نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تو ان کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ مرزائیوں نے ایبٹ آبادمیں ”گرمائی ربوہ“بنانے کے لئے ایک وسیع وعریض رقبہ حاصل کرلیا ہے،مفتی صاحب نے گورنر صوبہ پختونخواارباب سکندر خلیل سے مشورہ کے بعد ایک آرڈیننس جاری کرایا کہ صوبائی حکومت کسی بھی نجی ملکیت کو بحق سرکار ضبط کرسکتی ہے اس سے غرض یہ تھا کہ اس طریقے سے مرزائیوں کو وہاں سے بے دخل کردیاجائے گا،ابھی اس آرڈیننس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان کی اپنی جماعت کے بعض ذمہ دارعہدیداروں نے اس کو غیر شرعی حکم قراردے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کردیا جو واپس لے لیا گیا لیکن اس میں اصل کردار مجاہدختم نبوت مولانا لال حسین اختر کی جرات وبہادری اور مفکر اسلام مولانامفتی محمود کی حکمت علی اور معاملہ فہمی کا تھااس طرح ایبٹ شہر اس غلاظت سے محفوظ رہا،تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے مفکراسلام مولانامفتی محمود کا کردار سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے،انہی کی قیادت میں امت مسلمہ کو نوے سال تک خلفشار کا شکار کرنے والا مسئلہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے حل ہوگیااور قادیانیت امت مسلمہ سے الگ کرکے غیرمسلم اقلیت قراردے دیاگیا، ختم نبوت کے مرکزی مبلغ شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب مدظلہ رقمطراز ہیں کہ:”حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد ایک عقیدت مند نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ فرمائیے کیسے گذری؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ساری زندگی قرآن و حدیث کے تعلم میں گزاری۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشش و کاوش کی۔ وہ سب اللہ رب العزت کے ہاں بحمدہ تعالیٰ قبول ہوئیں مگر نجات اس محنت سے ہوئی جو قومی اسمبلی میں مسئلہ ختم نبوت کے لئے کی تھی۔ ختم نبوت کی خدمت کے صدقے میں اللہ نے میری بخشش فرما دی۔“آج اسی مفکر اسلام مولانامفتی محمود ؒکے کردارکوخراج تحسین پیش کرنے اور ان کی جامع خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے پشاور میں مفتی محمودؒ کانفرنس کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہورہاہے۔یہ اجتماع ایسے وقت میں ہورہاہے کہ ملک تاریخ کے مشکل ترین دورسے گزررہاہے۔قادیانیت کا اثر ونفوذ ملک میں بڑھتاجارہاہے،بین الاقوامی سطح پر قادیانیوں کی مکمل سرپرستی کی جارہی ہے،حکمرانوں کی صفوں میں ان کے بے شمار خیرخواہ پائے جارہے ہیں،معاشی طورپر ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ چکاہے،مہنگائی نے ہرپاکستانی کاجیناحرام کردیا ہے،کاروبار ٹھپ ہوکررہ گیا ہے،بیروزگاری نے نوجوان نسل کو ذہنی مریض بنادیا ہے،ادارے تباہ ہوچکے ہیں،خارجہ پالیسی کی ناکامی ہرشخص کونظرآرہی ہے،امریکہ کی طرف سے بیس سالہ رفاقت وتعاون کا بدلہ ایک بارپھر غندہ گردی سے دیاجارہاہے۔ملک قرضوں کے پہاڑ کے نیچے دبتا جارہاہے،روپے کی حیثیت دن بدن گرتی جارہی ہے،ملک میں ہرطرف افراتفری کی سی کیفیت پائی جارہی ہے،ایسے گھمبیر حالات میں ملک اور عوام کی صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا مفکر اسلام مفتی محمود کے جانشینوں کا اولین فریضہ ہے،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن صاحب مسلسل اس جدوجہد میں مصروف ہیں مگر اندرونی اور بیرونی قوتیں مولاناکی اس جدوجہد کو استحسان کی نظرسے نہیں بلکہ غیض وغضب کی نظر سے دیکھ کر ان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں،مگر جمعیت علماء اسلام کے قائدین اور کارکن بجائے مایوس ہونے کے اپنے ذمہ کے کام میں لگ کراپنے اکابر کی طرح جہد مسلسل اورعزم وہمت کی بھاگ ڈور تھامے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ دیگرجماعتیں اگر خلوص دل سے مولانافضل الرحمن کا ساتھ دے چکی ہوتیں تواب تک اس مادہء فساد کی بساط لپیٹی جاچکی ہوتی مگر ان کی مجبوریاں اور مصلحتیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن چکی ہیں۔