گولین کا صحت افزا ء مقام تباہی کے دہانے پر/ تحریر: محمد ایوب کوغوزی

اشتہارات

وادی گولین قدرت کا بنایا ایک پرکشش اور صحت افزاء مقام ہے جو آجکل عتاب خداوندی کے لپیٹ میں ہے۔پچھلے ایک دو سالوں سے نصف گولین کی تباہی وبربادی پوری چترال دیکھ رہی ہے، خدا نخواستہ یہ سلسلہ پورے وادی ہی کو لپیٹ میں نہ لے۔ گلوبل وارمینگ سے لیکر علاقے میں گلوف (GLOF)تک کے فلسفے کو ہم دل وجان سے ماننے کے لئے تیار ہیں مگر علاقہ مکین اصل حقیقت کو جان کر بھی حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ لہذا علاقے میں بربادی کے ان تمام عناصر کے علاوہ کہیں وادی گولین کی تباہی کا ایک اور عنصر کسی کی حق تلفی تو نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہم تھوڑا پیچھے جاتے ہیں۔
میتار آمان الملک کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا افراسیاب کو 1892 میں گولین کی پوری جائداد ورثے میں ملی تھی۔ کہیں زرعی زمین تو کہیں شکار گاہ اور چراگاہ۔وادی کے شروع سے لیکر کروئے اوچ اور پرگام تک پھیلی ہوئی تھیں۔ میتار ژاؤ افراسیاب کے پانچ میں سے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد وادی کے مختلف دیہات میں پرورش کی گئی ہے لہذا ایک طرف سے دونوں اقوام کا آپس میں رضائی رشتہ بھی رہا ہے جسکی ہر طرح سے پسران افراسیاب پاسداری کرتے آئے ہیں اور اس رشتے کے عوض دو دیہات کو افراسیاب کی طرف سے بڑی بڑی جاگیریں بھی دی گئی ہیں۔گولین کے آپس میں بھائیوں کی طرح رہنے والے اقوام کے درمیان تنازعہ اسوقت سے شروع ہوا جب بھٹو دور میں مشہور زمانہ لینڈ ریونیو ایکٹ نافذالعمل ہوئی۔ چراگاہ، اور غیر آباد زمین ریاست پاکستان کا ہے کہہ کر علاقہ مکین 1976-77میں گولین کے طول و عرض میں افراسیاب کے بیٹوں کے موروثی و سند شدہ جائدادوں پر ایسا قبضہ جمانے لگے جیسے کہ یہ اسوقت کے وزیر اعظم بھٹو مرحوم کی جاگیر تھیں، جو اب گولین کے باشندوں کو سونپ دی گئی ہیں۔ ہر طرف لا قانونیت اور قبضہ مافیا کا راج ہونے لگا، میتار ژاوان کے 21 چراگاہوں،زرعی ارضیات اور غیر آباد زمینوں پر مکین علاقہ قبضہ کر بیٹھے۔ ایک دو جگہوں پر ان ہی لوگوں کی پشت پناہی سے پشت در پشت گجر بھی قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔
مخصوض افراد کی زیر سرپرستی علاقے میں جنگلی حیات و جنگلات کی بہتات تھیں، کسی کی کیا مجال کہ بغیر اجازت کے شکار کھیلے یا ایک گیلی درخت کاٹ دے۔ جونہی اس قبضے کے بعد وادی میں موجود قدرتی صنوبر کے حسین جنگلات اور گولین جنگل میں موجود دیوہیکل برج اور بید وغیرہ کے جنگل بے دردی سے گرانا شروع ہوئے اور چند سالوں کے بعد یہ جگہ صرف نام کا جنگل رہا جسے آج بھی جنگل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گولین میں یہ جنگل نامی علاقہ ریاست چترال ہی کی ملکیت رہی ہے جو چترال ریاست کا پاکستان میں ضم ہونے کی صورت میں ریاست پاکستان کی سرکاری زمین قرار دی گئی ہے۔ جہاں ریاست ختم ہونیکے بعد ڈسٹرکٹ لوور چترال کے مختلف دیہات سے لوگ اپنے مال مویشی چرانے لے جاتے اور گرمیوں میں دو تین مہینے یہاں رکھ کر واپس لے جاتے،مگر بعد میں اس سرکاری زمین کو بھی قبضہ گروپ نے نہیں بخشا اور اس بڑے رقبے کے زیادہ تر حصے پر قبضہ جما بیٹھے۔
چونکہ لینڈ ریونیو ایکٹ 74 کے مطابق تمام چراگاہ، ریور بیڈ سٹیٹ پراپرٹی قرار دئے گئے ہیں مگر مزیدوضاحت یہ بھی کردی گئی ہے کہ ان سرکاری قرار دئے گئے زمینوں پر حق استفادہ ان لوگوں کو حاصل ہوگا جن کے زرعی زمینات یا گھر اس کے اوپر نیچے آتے ہوں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میتار ژاوان ہی کو حق استفادہ حاصل ہوتا ہے تا آنکہ فائنل فیصلے تک۔
گولین کے شروع سے آخر تک کے ہر دیہات کے قانونی حدبندی کو مہترجوان تسلیم کرتے آئے ہیں، مگر گولین کے عمر رسیدہ حضرات حقیقت جان کر بھی حق تلفی پر اتر آئے ہیں یا خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور دور حاضر کے نوجوان نسل کو غیر آباد زمینوں پر قبضے کی کھلی چھٹی دے رکھے ہیں جو جا بجا مہتر جوان کے موروثی جائدادوں پر قبضے کو فخر سمجھتے ہیں۔ جس مقام پر گذشتہ دنوں گلیشیئر پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آیا ہے یہ بھی افرسیاب کے ایک بیٹے کا جاگیر رہا ہے جو 1976 میں علاقہ مکینوں نے قبضہ کیا ہے۔
اس تمام تحریر کا مقصد یہ ہے کہ وادی گولین میں سالانہ جو تباہی ہو رہی ہے، آیا اس کی ایک وجہ کہیں دوسرے کا حق مارنا تو نہیں ہے؟ جی ہاں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اللہ کے نزدیک کسی کا حق ضائع کرنا گناہ عظیم ہے اور یہ کام علاقہ مکین پچھلے 54 سال سے کرتے آرہے ہیں جسکا خمیازہ ایسے قدرتی آفات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور اب بھی علاقے کے باشندے توبہ اور کئے گئے گناہوں سے معافی نہ مانگیں تو آنے والے وقتوں میں یہی گلاف پورے وادی کو لپیٹ میں لیگا اور آخر میں نتیجہ کھوار مقولے کے عین مطابق ”” نا تتے ڈوری نا متے کھپینی،،،۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق پر جینے، مرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
نوٹ۔ میرے اس تحریر کا مقصد کسی پر انگلی اٹھانا یا کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں ہے، بلکہ علاقے کے بارے تلخ مگر حقائق سامنے لانے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔

نوٹ: ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، کسی بھی مضمون یا مراسلے کے مندرجات مصنف کے خیالات اور رائے سمجھی جائیں۔ (ادارہ)