جمہوری تاج پوشی اور تاج کشی کی داستان/محمد جاوید حیات

اشتہارات

کہتے ہیں جس سر پہ تاج ہو وہ بے سکوں رہتا ہے اور دوسری طرف سر پہ تاج سجانا ایک نشہ ہے اس لیے کہ انگریزی میں کہتے ہیں۔۔ اقتدار میں یعنی طاقت میں نشہ ہے۔واقعتا ایسا ہے، دنیا میں شاہنشاہوں کے انجام اکثر بھیانک رہے ہیں۔ان کے ہاتھوں تلوار ایک دن انہی ہاتھوں میں ہتھکڑی رہی ہیں۔خس خانہ برفأب اورپرشکوہ محلات جیل رہے ہیں گلاب زندگی پل میں کانٹوں کا سیج بنتے دیکھا گیا ہے۔ زندگی ویسے بھی ناٹک ہے۔۔۔آہ اور واہ والا ڈرامہ۔۔۔
تاریخ میں بہت پیچھے کیوں جائیں۔تاتاری، ساسانی، قچاری رومی وغیرہ کا ذکر کیا چھڑیں۔۔فخر موجوداتﷺ نے امن و اشتی اور جمہوریت کا جو پیغام لایا آپ کے خلفاء نے اس کا عملی ثبوت پیش کیا۔اس کے بعد پھر تاج اور تاج پوشی کا آغاز ہوا۔فاروق اعظم ؓ اس لئے شہنشاہ فارس کے تاج پر پاؤں رکھ کرروئے تھے کہ آج سے امت کا زوال شروع ہوگا۔شاید اس نے محسوس کیا تھا کہ دولت اور اقتدار کی حرص امت میں سرایت کر جائے گی۔۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر تھکی ماندھی دنیا نے کہا کہ چلو مہذب بنتے ہیں ایک ایسا طرز حکومت لاتے ہیں جو لوگوں پر لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کی ہو۔۔۔انھوں نے اس کا نام”جمہوریت“رکھا۔۔دنیا کے بہت سارے ممالک میں اس کی پریکٹس شروع ہوئی۔اس کے ثمرات کسی کو ملے نہ ملے وطن عزیز میں اس کی عجیب تاریخ ہے۔اس کی تاریخ پڑھ کر لگتا ہے۔کہ یہ ہمارے ہاں تو کم از کم بچوں کا کھیل ہے۔۔غالب نے شکوہ کیا تھا
قطرے میں دجلہ دیکھائی نہ دے اور جزو میں کل۔۔
کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بنا نہ ہوا۔۔
وطن عزیز کی عمر 72 سال ہے اور تقریبا 22 وزراء اعظم جمہوریت کے تاج سر پہ سجائے مگر اپنی آئینی مدت کسی نے بھی امن سے پوری نہیں کیا۔اس سے ظاہر ہے کہ ان کی حکومت مثالی رہی نہ ان کی کارکردگی ورنہ تو جمہوریت کی طاقت ان کے تاج بچاتی۔۔15 اگست 1947 کو اس نوزائد ہ ملک کا پہلا جمہوری تاج خان لیاقت علی خان کو پہنایا گیا۔بابائے قوم خود زندہ تھے طویل جدوجہد کے بعد یہ ایک حقیقی جمہوری تاج تھا۔۔مگر 16 اکتوبر 1951کو اس کے سر کے ساتھ یہ تاج اڑایا گیا۔آپ تو شہید ملت کہلائے مگر جمہوری تاج کا انجام بھیانک ہوا۔پھر یہ تاج خواجہ ناظم الدین کے سر پہ رکھا گیا۔1953میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اس کے سر سے جمہوری تاج اُتارا۔خود فالج زدہ ہوا اور ایک خوبرو گوری کی سیکرٹری شپ میں حکومت چلاتا رہا۔یہ تاج 17 اپریل 1953ئکو محمد علی بوگرہ کے سر پہ سجادیا گیا۔1955 کو گورنر جنرل سکندر مرزا نے اس کے سر سے تاج اتارااور 12 اگست 1955 کو چودھری محمد علی کے سر پہ رکھا۔انہیں اتنا مجبور اور بے بس کیا گیا کہ 12 اکتوبر 1956 انہوں نے خود یہ تاج سر سے اتار پھینکا۔پھر یہ جمہوری تاج حسین شہید سہروردی کے سر سجا،انہوں نے خود ایک سال سے کم عرصے میں 17 اکتوبر 1957 کو یہ تاج اپنے سر سے پھینکا۔پھر سکندر مرزا نے یہ تاج آئی آئی چندریگڑکے سر پہ رکھا، اس نے دو ماہ بعدتاج اُتار پھینکا۔ 17 دسمبر 1957 کو یہ تاج فیروز خان نون کے سر پر سجا، انہوں نے آسٹریلوی نژاد بیگم بہادر خاتون بیگم وقار النساء نون نے بین القوامی عدالت میں ہمارے لیے گوادر کی جنگ لڑی اور قوم کی ماں کہلائی۔17 اکتوبر 1958ء کو فوجی کودیتا ہوں۔۔۔۔پھر 1971 تک یہی کشمکش رہی۔ جمہوریت کا تاج امریت کی طاقت پہ پڑا رہا۔۔ایک امر نے سچ مچھ الیکشن کرایا۔۔ملک دو ٹکڑے ہوگیا یہ کھیل تماشے تاریخ میں محفوظ ہیں۔۔پھر 1973 کو آئین بنا اور جمہوریت کا تاج پھر اب و تاب سے ایک جمہوری لیڈر نے اپنے سر پہ سجایا۔۔1977 کو پھر امریت آئی تاج اچھالا گیا۔۔۔ امر ملک کا صدر بنا اور 24 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو کے سر جمہوریت کا تاج رکھا گیا۔۔تین سال بعد اس کے سر سے اتارا گیا۔1988 کو یہ تاج بینظیر بٹھو کے سر سجا۔تین سال بعد اس کیسر سے اُتارا گیا۔یکم نومبر 1990 کو میاں نواز شریف کے سر پہ سجا۔1993 کو اُتارا گیا۔پھر بینظیر بٹھو کے سر پہ سجا۔۔5 نومبر 1996 کو وہ تاج سے محروم کیا گیا۔1997 پھر نواز شریف کے کندھے پر اقتدار کا پرندہ بیٹھا 12 اکتوبر 1999 کو امریت اآئی پھر ظفر جمالی کی باری۔۔۔26 جون 2004 کو چودھری شجاعت آیا۔ پھر شوکت عزیز کی باری آئی۔2008 کو یوسف رضا گیلانی مسند پہ بیٹھے۔اس کے سر سے اُتارا گیا۔پرویز پر اقتدار کی چڑیا مہربان ہوئی۔25 جون 2013 کو پھر میاں صاحب آئے۔ حقان عباسی آیا۔۔۔ابھی خان صاحب کے سر پہ سجا ہے۔۔۔یہ ہماری 72 سالہ امریت اور جمہوریت کی تاریخ ہے۔۔امریت کے دوران میں نسبتاً سکون رہا۔۔قیمتیں کنٹرول میں رہیں۔قرض کم رہے۔ڈیم بنے۔۔۔۔جنگیں ہوئیں۔ملک ٹوٹا۔دہشت گردی ہوئی۔دشمنوں کی سازشیں اٹھی لیکن ناکام بنا دی گئیں۔۔دشمنوں کے خواب چکناچور رہے۔غیر سنجیدہ سیاست کے شورو غوغا سے قوم بچتی رہی۔ترقیاتی کام خال خال ہوتے رہے۔۔۔جمہوری دور میں افراط زر قرضے آئے ایم ایف۔زاتی جاگیریں۔شاہ خرچیاں۔غیر سنجیدہ سیاست اقربا پروری۔سیاسی گوشمالیاں وفاداریاں۔کرپشن۔مگر اٹم بم کی بنیاد۔دھماکہ۔آئین۔اقلیتی فیصلے۔قیدیوں کی رہائی۔عوامی بیداری۔قومی شاہراہ وغیرہ ایسے کام کہ انکارممکن نہیں۔۔مجموعی تاریخ سب کے سامنے ہے لیکن یہ تاج بہت بے وفا ہے۔۔کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا۔۔اپنے پیچھے ہر بری بھلی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔۔اس کی چمک دمک جلد غافل کردیتا ہے۔۔۔یہ آج ہے کل نہیں ہے۔۔۔ 72 سالوں میں 22 بندوں کے سروں پہ سجا ایسیاتار گیا گویا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔۔