ہندراب شندور نیشنل پارک نامنظور /تحریر:فضل الدین جوش

اشتہارات

چترال کے نقشے پر شندور مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ طبعی لحاظ سے شندور چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ غوچھار کہلاتا ہے،دوسرا حصہ زنگیان شال کے نام سے پہچانا جاتا ہے، تیسرا حصہ جھیل کے اطراف کا میدانی علاقہ ہے جسے پنجی لشٹ کہتے ہیں،چوتھا حصہ مڑان شال کہلاتا ہے جو جھیل کے مشرق میں ہے، پانچواں حصہ اشپیر زوم کہلاتا ہے اور چھٹاحصہ کوکوش لنگر اور باھا کی وادی پر مشتمل ہے۔
ملکیت کا سب سے بڑا ثبوت کسی مالک کا قبضہ ہوتا ہے۔ لاسپور کے عوام کی بستیاں 800 سالوں سے شندور کے ان مذکورہ مقامات پر آباد ہیں اور پانچ عبادت خانے شندو رمیں موجود ہیں۔
لاسپور کے عوام کی بستیوں کی تفصیل یہ ہے
1- غوچھار: بالیم کے لالے قوم کی گرمائی بستی ہے۔
2۔زنگیان شل: سورلاسپور کے شالے بوژوکے اقوام کی گرمائی بستی ہے
3۔پنجی لشٹ: سورلاسپور کے عوام نے یہاں نہر کشی کر کے کھیتی باڑی کی ہے۔
4۔ شکارگہ: رامن کے عوام کی گرمائی بستی ہے۔
5۔ مڑان شال: بالیم اور بروک کے عوام کی گرمائی بستی ہے۔
6۔ اشپیر بوہتی: گشٹ کے عوام کی گرمائی بستی ہے۔ ہرچین کے عوام کی گرمائی بستی درہ چمرکھن سے متصل غوٹ بار کے مقام پر واقع ہے۔ اور ان گرمائی بستیوں میں 600 گھرانے آباد ہیں۔
عبادت خانوں کی تفصیل یہ ہے
1۔ زنگیان شال مسجد
2۔ مہوران پاڑ مسجد
3۔ گشٹ شال جماعت خانہ
4۔ رامن شال جماعت خانہ
5۔ مڑان شال جماعت خانہ
مغرب میں غوچھار سے مشرق میں مڑان شال کی حد تک 17 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ اس علاقے میں چار پولوگروانڈ اور تین جھیلیں ہیں جو کہ لاسپور کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان پر کبھی تنازعہ نہیں ہوا۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
1۔زنگیاں شال جنالی
2۔مس جنالی جو 1927 میں چترال کے پولٹیکل ایجنٹ نے چاندنی رات میں تعمیر کیا۔
3۔مڑان شال جنالی
4۔مہورن پاڑ جنالی
تاریخ چترال مطبوعہ 1962صفحہ 16 پر مرزا محمد غفران نے شندور کا تعارف ان جملوں میں لکھا ہے۔”شندور لاسپور کے اوپر ایک طویل 3 میل کا جھیل ہے، اردگرد سرسبز نشیب میدان ہے۔ یہاں پولوگراونڈ ہے جہاں چترال اور گلگت کے پولو ٹیموں میں مقابلہ ہوا کرتا ہے۔شندور اہلِ لاسپور کی چراگاہ ہے“۔
لینڈ کمیشن کی ریورٹ
31 جولائی 1975 کو نارتھ ویسٹ فرنٹیر پراونس موجودہ خیبرپختونخواہ صوبہ کی حکومت نے فیڈرل لینڈ کمیشن کی سفارشات پر سرکاری زمینوں کی فہرست اپنے نوٹیفکیشن نمبر 73/(HD)10/31 SOTA 2 کے تحت جاری کر دیا۔ اس نوٹیفیکیشن کے سلسلہ نمبر 159 میں مس جنالی رقبہ 4 چکورام اور سلسلہ نمبر 160 میں مہوران پاڑ جنالی کا رقبہ 6 چکورام درج کیا گیا ہے۔ دونوں جنالی کے۔پی حکومت کی ملکیت ہیں۔یہ نوٹیفکیشن 5 اگست 1975 کو شائع ہوا۔60 دن تک اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوئی۔
حقوق ملکیت کے حوالے سے انگریزوں کی ڈاک کا ریکارڈ دستیاب ہے، لینڈ کمیشن کے ریکارڈ موجود ہے،شندور روڈ کے معاوضے کا ریکارڈ موجود ہے،نیز شندور کے مقام مس جنالی کے نزدیک مہتر چترال شجاع الملک کے بنگلے میں گلگت کے آفیسروں کے لئے کمرہ کی ریزروشن کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ڈاک کے نظام میں اپنی ریاستی حدود کے اندر مہتر چترال کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔6 ستمبر 1948 کو مہترِ چترال مظفرالملک نے اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ چترال کو ایک چھٹی لکھی جس میں پرانی نرخوں پر نظرثانی کرنے کی استدعا کی۔ خط میں ڈاک کے مندرجہ زیل مقامات لکھے ہوئے ہیں۔
. . سابقہ ریٹ نیا ریٹ
پارسل چترال مستوج -/100 . -/130
پارسل مستوج سے لنگر . -/30 . – /50
ڈاک رنر چترال سے مستوج -/45 -/60
پارسل مستوج سے لنگر -/45 -/50
دوا سکارٹ . -/00 -/185
ٹوٹل . -/200 -/375
ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لنگر تک چترال کی ریاستی حکومت ڈاک کو کنٹرول کرتی تھی۔ یہ شندور کی ملکیت کا سب سے اہم ثبوت ہے۔
مہترِ چترال کا بنگلہ
شندور میں مس جنالی کے ساتھ متصل ٹیلے پر مہتر چترال نے 1926 میں بنگلہ تعمیر کروایا تھا۔یہ بنگلہ ہزہائی نس شجاع الملک کا مہمان خانہ تھا۔ گلگت کے آفیسر شندور کے راستے چترال آتے تو اسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال کے ذریعے باقاعدہ بنگلہ میں کمرہ ریزرو کروا کر آتے تھے۔ 16 جولائی 1928 کو کمانڈنٹ گلگت سکاؤٹس نے کپٹن کاب اے پی اے چترال کو ٹلیگرام بھیج کر ہزہائی ہائی نس کے بنگلے میں ٹھہرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جواب میں کپٹن کاب نے ہزہائی نس کے سیکرٹری سے منظوری لیکر کمانڈنٹ گلگت سکاؤٹس کپٹن وائٹ کو آگاہ کیا کہ وہ بنگلے میں ٹھہر سکتے ہیں۔
شندور روڈ کا معاوضہ
لینڈ ایکویزیشن کے ریکارڈ کے مطابق شندور روڈ کی تعمیر کے لئے پنجی لشٹ سے لیکر اختتام تک زمین کو گریڈ ڈی قرار دے کر 5000 فی چکورام معاوضہ مقرر کیا گیا اور لاسپور کے عوام کے نام ایک لاکھ 62 ہزار روپے کا ایوارڈ منظور کیا گیا۔ یہ بھی ملکیت کا ثبوت ہے۔
سورلاسپور کے عوام نے 1916 میں پنجی لشٹ کے مقام پر نہر کشی کر کے جو کی کاشت کا تجربہ کیا تھا۔ یہ نہر غوچھار کو سیراب کرتی ہے اور غوچھار کے مقام پر اب بھی کاشت کاری ہوتی ہے۔
ملکیت کے ان ثبوتوں کے ہوتے ہوئے شندور کو گلگت بلتستان کا حصہ قرار دینا عوام چترال اور بلخصوص عوام لاسپور کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔ عوام لاسپور وفاقی حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا پر زور مطالبہ کرتے ہیں بصورتِ دیگر لاسپور کے عوام کسی بھی قسم کے احتجاج سے گریز نہیں کرینگے اور عوام لاسپور کا معاؤنِ خصوصی وزیرزادہ، ایم این اے عبدل اکبر چترالی صاحب اور ایم پی اے ہدایت الرحمن صاحب سے گزارش ہے اس حوالے سے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔