کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کی چترال میں کھلی کچہری، عمائدین نے مسائل کے انبار لگا دئے

اشتہارات

چترال(گل حماد فاروقی) کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سید ظہیر الاسلام کی طرف ٹاؤن ہال چترال میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام محکموں کے سربراہان، ڈپٹی کمشنر حسن عابداور عوام نے بھر پور انداز میں شرکت کی۔ کھلی کچہری میں عوام نے شکایات کے انبار لگادئے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ نے کہا کہ گرم چشمہ سڑک چونکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی(NHA)کو حوالہ ہوا ہے جس پر ایک ٹھیکدار نے جولائی میں روڑہ ڈالا تھا جس کی وجہ سے اس سڑک پر آنے جانے والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس دن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ چترال کے دورے پر آرہے تھے اسی دن ٹھیکدار نے اس سڑک پر تارکول کا کام شروع کروایا، ٹریفک بند کیا اور لوگ ائیرپورٹ کے ساتھ کچے سڑک پر جارہے تھے مگر جس دن وزیراعلیٰ واپس چلے گئے اس دن اس سڑک پر بھی کام بند ہوا اور راتوں رات ساری مشینری بھی کسی اور جگہ پہنچائی گئی۔نیازی نے کہا کہ یہ عوام کے ساتھ دھوکہ اور حکومت کے آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں تو اور کیا ہے۔کمشنر نے چترال کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں انکوائری کرے اور جو ٹھیکدار اور محکمہ کے لوگ اس میں ملوث ہو ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔

بموریت کی معروف شخصیت عبدالمجید قریشی نے کہا کہ وادی کالاش کی سڑکیں نہایت خراب ہیں اور ہر سال سینکڑوں سیاح اس سڑک پر سفر کرکے آتے ہیں مگر ابھی تک اس پر عملی کام شروع نہیں ہوا۔ عنایت اللہ اسیر نے کہا کہ چترال یونیورسٹی کیلئے ایک ٹیکنیکل کالج کے عمارت پر قبضہ کیا گیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے سینکڑوں طلباء متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سید آباد کے مقام پر جامعہ چترال کے لئے سینکڑوں ایکڑ زمین خریدی گئی مگر ابھی تک اس کی عمارت پر کام شروع نہیں ہوا جس سے لوگوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ اس کیلئے 2016 میں زمین خریدی گئی اور ڈھائی ارب روپے کا گرانٹ بھی دیا گیا ہے مگر ابھی تک ایک کیمپس بھی نہیں بنایا گیا۔محکم الدین ایونی نے کہا کہ ایون میں زنانہ ڈگری کالج کیلئے زمین کافی عرصہ پہلے خریدا گیا مگر اس پر کام بند ہے اور اس وادی کے طالبات کو بہت دور جاکر تعلیم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ امیر علی نے کہا کہ چترال پانی کی سرزمین ہے مگر لوگ پیاسے ہیں اور زمین خشک پڑی ہے۔ اس کے علاوہ سڑک کی تعمیر کا کام جس ٹھیکدار کو دیا جاتا ہے ان کے پاس کوئی مشینری نہیں ہوتی اور وہ خواہ مخواہ میں ٹھیکہ لیکر عوام کو تنگ کررہے ہوتے ہیں، ایسے ٹھیکداروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے جن کے پاس نہ لیبر ہو نہ مشینری اور سڑک پر میٹریل ڈال کر اس پر گزرنے والوں کو گرد و غبار اور آلودگی کی وجہ سے بیمار کراتا ہے۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ چترال میں پہلے جماعت اسلامی نے ٹورنمنٹ کروایا،اب پی ٹی آئی والے کروارہے ہیں کل کوئی سیاسی جماعت کروائے گا اس سے نوجوان نسل بہت زیادہ وقت کھیل میں ضائع کرتا ہے اور پڑھائی اور دیگر کام متاثر ہوتے ہیں۔ عوام نے شکایت کیا کہ یہاں عمارت تو بنائے جاتے ہیں مگر اس کے پاس کار پارکنگ نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کمشنر کے سامنے چترال گول نیشنل پارک میں عملہ کو تنخواہ نہ ملنے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا نیز غیر قانونی شکار کی بابت بھی شکایت کی گئی۔
کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سید ظہیرالاسلام نے کھلی کچہری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں چترالی عوام کا بے حد مشکور ہوں کہ کئی دہائیوں سے مشکلات برداشت کرتے ہیں مگر کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا،اب ملاکنڈ ؑڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کیاجارہا ہے جس سے کافی مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہان پر زور دیکر کہا کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگلے چند مہینوں میں چترال کے کافی سڑکیں تعمیر کی جا ہونگی جو کہ پچھلے۳۷ سالوں میں پہلی بار ہورہا ہے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو سختی سے کہا کہ جن محکموں کے خلاف شکایات آئے ہیں ان سب کے خلاف اور متعلقہ ٹھیکداروں کے خلاف بھی قانونی کاروائی کرے۔لوگوں نے یہ بھی شکایت کیا کہ چترال کے مضافاتی علاقے بلچ، سینگور، شاہ میراندہ وغیرہ میں طلباء و طالبات کے کئی ہاسٹل ہیں مگر یہاں انٹرنیٹ کی رفتار کمزور ہونے کی وجہ سے ان طلباء اور صارفین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ بلچ اور سینگور کیلئے ایم سیگ ایکسچینج بھی منظور ہوئے ہیں مگر محکمہPTCL اسکی تنصیب میں تاخیر ی حربے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو بھی مرکزی سطح پر اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور ان پر زور دیا کہ اپنی مثالی امن کو کسی بھی قیمت پر بھی خراب نہ ہونے دینا کیونکہ امن ہے تو خوشحالی ہے اور ترقی ہے جب امن نہیں ہوگا تو ہمارا سکون برباد ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے بلڈنگ اتھارٹی کو حکم دیا کہ وہ نئی عمارت بنتے وقت چیک کرے کہ اس میں کار پارکنگ اور دیگر سہولیات موجود ہے کہ نہیں۔ اور دریا کے کنارے دو سو فٹ تک کوئی عمارت نہیں بنے گی کیونکہ سوات کالام میں دریا کے کنارے بننے والے عمارتوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ انہیں مسمار کیا جائے۔ کھلی کچہری میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شر کت کی اور کمشنر ملاکنڈ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی شکایات سنے۔