فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے تاریخی ملاقات، ایک نئے عالمی منظرنامے کی جھلک/تحریر: حسام عنایت

اشتہارات

واشنگٹن ڈی سی میں 18 جون 2025 کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا جب پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک تاریخی ملاقات کی۔

یہ ملاقات نہ صرف اپنی نوعیت کی پہلی عسکری سطح کی سفارتی سرگرمی تھی بلکہ ایک ایسے وقت میں ہوئی جب خطے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ، پاک بھارت کشیدگی، اور افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال عالمی منظرنامے پر غالب تھی۔
اس ملاقات کی سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ یہ مکمل طور پر ایک عسکری وفد کی نمائندگی پر مبنی تھی، جس میں کسی بھی پاکستانی وزیر یا حکومتی اہلکار کی شرکت شامل نہیں تھی۔ فیلڈ مارشل کے ہمراہ صرف پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر تھے، جبکہ امریکی صدر کے ہمراہ سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو، مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندہ اسٹیو ویٹکوف، اور دیگر اعلیٰ سطحی حکام موجود تھے۔ اوول آفس اور کیبنٹ روم میں ہونے والی یہ ملاقات ایک ظہرانے تک محدود نہ رہی بلکہ طے شدہ وقت سے دوگنی یعنی دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہی، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور اہمیت کی مظہر ہے۔

ملاقات کے دوران فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ثالثی کا مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے علاقائی امن کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا بلکہ انسداد دہشت گردی میں پاک-امریکہ شراکت داری کو بھی ایک قابلِ اعتماد تعلق قرار دیا۔ انہوں نے فیلڈ مارشل منیر کی قائدانہ صلاحیتوں اور فیصلہ سازی کی تعریف کرتے ہوئے انہیں خطے کے ایک کلیدی رہنما کے طور پر تسلیم کیا۔

صرف یہی نہیں یہ ملاقات اس لیے بھی غیر معمولی تھی کیونکہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، اور پاکستان کی ایران کے ساتھ جغرافیائی قربت اور حالیہ سفارتی سرگرمیوں کے باعث اسلام آباد کی اہمیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں، امریکی صدر کا پاکستانی آرمی چیف سے براہ راست مشاورت کرنا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ واشنگٹن خطے کے مستقبل میں پاکستان کو ایک فیصلہ کن فریق سمجھتا ہے۔

ملاقات کے دوران دونوں فریقین نے معیشت، تجارت، توانائی، معدنی وسائل، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، اور کرپٹو کرنسی جیسے جدید شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ طویل المدتی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر تجارتی شراکت داری کی خواہش کا اظہار کیا، جو مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کے وژن پر مبنی ہو گی۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے بھی گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس میں اپنے بیان میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ داعش خراسان کے ایک اہم کارندے "جعفر” کی گرفتاری کے فوراً بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر نے خود انہیں فون کیا اور اس دہشت گرد کو امریکہ کے حوالے کرنے کی پیشکش کی۔ جنرل کوریلا نے پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی میں امریکہ کا ایک بہترین اور قابلِ اعتماد اتحادی قرار دیا۔ یہ اعتراف اس حقیقت کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان اب صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ عالمی امن میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے اس ملاقات کو صرف ایران اور اسرائیل کے تناظر میں محدود نہ رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان شراکت داری اب معدنیات، کرپٹو، انسداد دہشت گردی اور دیگر جدید شعبوں تک پھیل چکی ہے، اور فیلڈ مارشل منیر ان تمام امور پر مؤثر انداز میں بات چیت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

مزید برآں ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی یہ ملاقات بھارت کے لیے سفارتی محاذ پر ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ اسی دن بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے گھبراہٹ میں ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے فوجی اڈوں پر نام نہاد حملوں کے مضحکہ خیز دعوے کیے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ امریکہ نے انہیں پیشگی اطلاع دی تھی کہ پاکستان جوابی کارروائی کرے گا، مگر اس کے باوجود بھارت کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کر سکا۔

بعد ازاں خود بھارتی دفاعی ماہرین اور عالمی میڈیا نے ان بیانات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ 6 اور 7 مئی کی شب ہونے والی جھڑپوں کے بعد 10 مئی کو پاکستان کی جوابی کارروائی نے بھارتی پوزیشن کو شدید دھچکا پہنچایا، اور اسی دن بھارت نے امریکہ کو جنگ بندی کرنے کی درخواست کی۔

یہ ملاقات صرف سفارتی سرگرمی نہیں، بلکہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت کا مظہر ہے۔ اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اس موقع کو استعمال کر کے عالمی فورمز پر اپنے مفادات کا بہتر دفاع کرے اور خطے میں امن و ترقی کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کرے۔ یہ وہ لمحہ ہے جو آنے والے برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کر سکتا ہے۔

ملاقات کے اختتام پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کو پاکستان کے باضابطہ دورے کی دعوت دی جسے ٹرمپ نے خوش دلی سے قبول کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک نئی اور مستحکم شراکت داری کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔