صحافتی اداروں کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری/تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ

اشتہارات

عصر حاضر کی صحافت اور ذرائع ابلاغ کو ماہرین نے معاشرے کی آنکھ قراردیا ہے،کسی بھی انسان کے لیے آنکھوں کی بینائی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے،جس سے اس کی زندگی میں رنگ و نور چارسو پھیلا ہوتا ہے جبکہ بصارت سے محروم افراد کو زندگی بے رنگ اور رات دن یکساں لگتے ہیں۔ آنکھیں خدا کی وہ نعمت ہیں جس کی قدروقیمت کا اندازہ ان لوگوں سے مل کر لگائیں جواس سے محروم ہیں۔اگرآنکھیں صحت مند ہوں تو زندگی روشن اور نہ ہوں تو زندگی بے رنگ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ خدا کی یہ بہترین نعمت اہم بھی ہے اور انتہائی حساس بھی۔ یہ جسم کا ایک ایسا عضو ہے جس کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو عمر کے ساتھ ساتھ کمزور ہونے لگتی ہیں اور زندگی میں اندھرے چھاجاتے ہیں۔
ایسی طر ح آج ہمارا ملک جن مسائل سے جوجھ رہا ہے ان میں سے ایک انتہائی اہم مسئلہ غیر اصولی صحافت، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا ہے۔ افسوس کہ ہمارے اس ملک میں بھی جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس ملک کا چوتھا ستون صحافت منہدم ہوچکا ہے۔حکومت دانستہ یا غیر دانستہ غفلت کی شکار ہے۔کیا جمہوریت کی حفاظت میں صحافت اور ابلاغ و ترسیل کی حفاظت شامل نہیں ہے کیا حکومت اور عوام کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔کاش اسکرینوں پر نظر آنے والے اور روز ناموں میں اپنے وجود کے جوہر بکھیرنے والے صحافی اور قلم کار اپنے فرض منصبی کو سمجھتے اور نفرت کی بیج بونے کے بجائے امن و شانتی اور پریم و محبت کی سوغات بانٹتے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دور میڈیائی دور ہے، یوں تو جب سے دنیا قائم ہے ابلاغ و تبلیغ اور ارسال کی اہمیت رہی ہے، ہر زمانے میں اس سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ لیکن آج ترسیل اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور اس کے ذریعہ سے خیر و شر نفع و نقصان اور صحیح اور غلط ہر میدان میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ آج باطل طاقتیں اس کے ذریعہ سے کیا کیا سازشیں کر رہی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ کھڑا کر رہی ہیں، وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کے پاس نہ کوئی مضبوط میڈیا ہے اور نہ ہی طاقتور ذرائع ابلاغ جس کے ذریعہ ہم دشمن کے میڈیائی اور ابلاغی حملوں کا مقابلہ کرسکیں،ہم نے اس کے لئے نہ کوئی پلائنگ کی اور نہ ہی منصوبہ بندی کی،جس کا نقصان ہم ہر جگہ اور ہر شعبہ میں اٹھا رہے ہیں ہم نے ذرائع ابلاغ، میڈیا، اور ترسیل و ابلاغ کو نبوی مشن کا حصہ ہی نہیں سمجھا اور اس کی ضرورت و اہمیت کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ صحافت، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذرائع کا استعمال ہمیشہ ہوا ہے۔لیکن حق اور سچ اور واشگاف کہنے والے اور بے لاگ لکھنے والے ہر دور میں کم ہوئے ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک میڈیا حق اور توحید پرستوں کا تھا اور دوسرا میڈیا باطل پرست کافروں اور مشرکوں کا تھا، آج ہی کی طرح اس زمانے کی باطل میڈیا والے بھی خوب مکر و فریب کا دھندہ کرتے تھے نبوت و رسالت کے خلاف اور حق پرستوں کے خلاف خوب نفرت کا ماحول پیدا کرنے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے تھے۔
آج پاکستان میں عوام اور میڈیا کو بچانے کیلئے متحد ایک آواز ہونا چاہئے۔ آل پاکستان ریجنل نیوزپیپرزسوسائٹی کے بانی وصدر غلام مرتضیٰ جٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 1۔موجودہ حالات میں پرنٹ میڈیا انڈسٹری کے لوکل /ریجنل اخبارات کی پرنٹنگ نہایت مشکل ہوچکی ہے۔2۔جہاں ایک طرف روزبروز پرنٹنگ میٹریل مہنگا ہورہاہے وہیں پیپر کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔2۔اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اکثراخبارات تو ABCنہ ہونے کی وجہ سے میڈیا لسٹ میں بھی شامل نہیں ہیں۔3۔پرنٹ میڈیا انڈسٹری کے لوکل /ریجنل اخبارات کو بچانے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔4۔لوکل/ریجنل اخبارات گلی محلہ سطح تک عام آدمی کی آواز ہیں /عوام تک حکومتی اقدامات اور عوامی مسائل حکومت تک پہنچانے رہے ہیں۔5۔پاکستان کو چوتھا آپ کی توجہ کا منتظر ہے۔6۔یہ اخبار ات نظریہ پاکستان کے محافظ کا کرداراداکررہے ہیں۔7۔کاغذاور پرنٹنگ میٹریل کو ٹیکس فری کرکے کنٹرول ریٹ پر دیا جائے۔8۔سرکاری سطح پر اشتہارات اور پرنٹنگ میں مکمل سرپرستی کی جائے اور چوتھے ستون کو مضبوط کیا جائے۔9۔سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔خداراان چراغون کو بجھنے سے بچائیں۔ریاست کے چوتھے ستون کو آپ کی توجہ چاہئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ذریعہ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہویا انٹرنیٹ اس کی اہمیت اور اس کی اثر انگیزی ہردور میں مسلم رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل اتنا ہی ضروری ہے، جتناکہ غذا اور پناہ گاہ۔انسانی نقط? نظر سے دیکھا جائے توترسیل دو طرفہ سماجی عمل ہے اور اس دور میں بھی جب منہ سے نکلی ہوئی آواز نے الفاظ اور منقش تحریر کاجامہ زیب تن نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے،حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل و ابلاغ کی ضروت کی تکمیل کیا کرتاتھا، ابلاغ اور ترسیل کے وسائل انسانی معاشرے میں اہمیت کے حامل تھے، اور آج کے برق رفتار عہدمیں تو اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترسیلی شعبے کے بعض ماہرین نے کسی مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر وترقی میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے۔ اگر یہ ذارئع ترسیل نہ ہوتے، تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔