پہاڑوں کا شہزادہ/تحریر: محمد جاوید حیات

اشتہارات

ہائی سکول بمبوریت کے گراؤنڈ میں والی بال کا میچ ہو رہا تھا ہماری مخالف ٹیم مضبوط تھی۔باہر سے ایک مہمان نے کھیلنے کی خواہش ظاہر کی۔مخالف ٹیم نے کہا ہم مضبوط ہیں تمہیں کھیلا نہیں سکتے ہم نے کہا مہمان ہے ہم ان کو کھیلائیں گے ہم نے اس کو کھیلنے کی دعوت دی مسکرا کرقبول کیا اور کنارے میں ایک سایڈ پہ کھڑا رہا۔ظالم نے چپل پہن رکھا تھا۔۔مہمان تھا ہم کیسے کہتے بھائی چپل پہن کرکھیلا نہیں کرتے۔۔مہمان کا قدکاٹھ کھلاڑیوں کاتھا۔چریرابدن،ہنستامسکراتاچہرہ،نرم لہجہ،لمبوتراقد،،مخالف ٹیم نے زور جمائی۔نائن۔۔لو! ہائے اللہ اب ہم ہارینگے بُری طرح شکست کھائیں گے۔۔اس سمے مہمان نے کہا ذرا سروس مجھے پکڑوا دو۔گراوئنڈ سے ذرا پرے ہٹ کر بال اوپر اچھالا اور خود بھی چھلانگ لگا کر بال کو مارا مخالف ٹیم پر ہیبت طاری ہو گئی کوئی بھی بال اٹھا کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ ہر سروس پوائنٹ پہ تھا مسلسل نو سروس بال نو پوائنٹس۔۔لو nine each.. اس نے سروس چھوڑ دیا تماشائی چیخ رہے تھے۔ہم نے ایک دوسرے کے کان میں کہا۔۔۔ پشاور میں کسی کلب کا کھلاڑی ہو گا۔۔واقعی ایسا تھا۔نام ذوہیب اللہ تھا۔۔اپر دیر سے تعلق تھا پشاور میں ایک نامی گرامی کلب کا کھلاڑی تھا۔کلب میں نام ذہیب جان تھا واقعی کھیل کی جان تھا۔۔ذوہیب نے پشاور یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔سرحد یونیورسٹی سے سپورٹس سائنس میں ماسٹر کیا۔پشاور ڈائریکٹریٹ ٹوریسٹ سروس جائن کیا سب انسپکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔والی بال ان کا ٹیلنٹ اور شناخت ہے۔والی بال اس سے سجتی ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ صلاحیتوں کے لحاظ سے بھر پور ہے کوئی بھی میدان ہو اس کے جوان اپنا لوہا منواتے ہیں۔ذوہیب کا تعلق دیر اپر سے ہے اس لیے میں اس کو پہاڑوں کا شہزادہ کہتا ہوں۔ اس نے والی بال سکول سے سیکھی اساتذہ نے حوصلہ دیا تو گاؤں سے سیکھی پھر کالج اور یونیورسٹی کی سطح پہ کھیلا اور نام پایا۔ذوہیب ہمارے ساتھ دو دن رہے سارا گاؤں ان کا کھیل دیکھنے امڈ آیا۔ سوال ٹیلنٹ کا ہے اگر ذوہیب کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو قیمتی ترین کھیلاڑی ہوتا۔۔بڑے بڑے کلب اس کو افر کرتے کروڑوں کماتے لیکن یہاں پہ ٹیلنٹ کی قدر نہیں۔۔ہنر ہنرور کے ساتھ مر جاتا ہے۔ذوہیب اس علاقے میں اپنا نشان چھوڑ گیا اس کا اخلاق اس کا نرم رویہ اس کا ٹیلنٹ سب نمایان تھے۔وہ قوم کا ایک ایسا فرزند ہے جو بقول اقبال قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے۔اس سے ملنا اس کو جانچ پرکھنا اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے پھیلانا ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ موتی سیپی کے اندر جب تک ہے اس کی قدر کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ذوہیب کے ہنر کی قدر ہونی چاہیے۔اور اس کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ ٹیلنٹ (ہنر) دوسروں تک منتقل کرے۔ذوہیب بہت دلکش شخصیت کے مالک ہیں صرف دو دن میں ہم سب سے ایسے گل مل گئے کہ سب اس کو یاد کرتے ہیں۔ایسی کرشماتی شخصیت کے لوگ کم کم ملتے ہیں۔ان کی وجہ سے اس کے ڈیپارٹمنٹ کی عزت افزائی ہوئی کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ایسے ہیروں کو پالتا ہے۔ذوہیب ایسے اردو بولتے تھے کہ ہمیں اردو سے پیار آیا۔لوگوں سے ایسے ملتے تھے ہمیں اس کے اخلاق پہ حیرانگی ہوئی۔یہ لوگ مثل موتی ہوتے ہیں اور ہر کہیں اپنے ادارے اپنے علاقے اپنے قبیلے اور اپنی اور ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ذوپیب جان کے جانے کے بعد سب نے اس کو بہت مس کیا۔سب نے اس کا پوچھا۔اس گراونڈ میں ولی بال اب بھی کھیلا جا تا ہے لیکن ذوہیب جان نہیں البتہ ان کے نام کی لاج سے ہم ولی بال کھیلتے رہیں گے۔۔ذویب جان کو ہم یاد کرتے ہیں۔اللہ اس کو خوش رکھے۔۔۔۔