تجارت کسی بھی معاشرے کے استحکام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے موجودہ دور میں وہ ممالک سب سے مضبوط اور طاقتور سمجھے جاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوں۔ لین دین کی بنیاد وہ باہمی اعتماد ہے جو ایک گاہک اور دکاندار کے مابین شروع ہوتی ہے۔ چترال سرکاری مردم شماری کے مطابق چار لاکھ سینتالیس ہزار اور غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سات لاکھ سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہے جو کہ اب دو اضلاع میں منقسم ہو چکا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اپر چترال کی آبادی کی خریداری کا بڑا انحصاراب بھی لوئر چترال کے مین بازار پر ہے۔اس لئے تعمیرات سے لے کر خوراک،پوشاک، تعلیم و صحت اورغمی و خوشی کی تمام ترخریداری کا بڑا مرکز چترال مین بازار ہی ہے جس میں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔اس لئے اس بازار کی کاروباری اہمیت مسلمہ ہے اور اس کی تنظیم تجار یونین چترال کے نام سے بہت مضبوط تنظیم ہے جو چترال کے نامور شخصیات کی سرپرستی میں بہت قدیم سے قائم ہے بد قسمتی سے گذشتہ الیکشن سے تاجر یونین کو نظر لگ گئی تھی اورتجاریونین کے اندراختلافات ذاتیات کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ان تنازعات کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ چترال تجار یونین کے انتخابات کے حق میں نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ تجار یونین کی عبوری کابینہ نے جب انتخابات کیلئے پولنگ بوتھ قائم کرنے کے سلسلے میں ٹاؤن ہال اور پولوگراؤنڈ کی منظوری طلب کی توڈپٹی کمشنر چترال نے صاف انکار کردیابلکہ کامرس کالج ہال میں بھی تجار یونین کے انتخابات کی اجازت نہیں دی گئی جو تجار یونین اورتمام ممبران کیلئے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں تھی۔ ایسے ماحول میں دو اداروں چترال پولیس اور چترال پریس کلب کا کردار نہایت ہی قابل ستائش ریا جنہوں نے عبوری کابینہ تجار یونین چترال کی درخواست قبول کرکے اپنا”ادارہ“ ہونے کا ثبوت دیااوران کے مطالبے پر اپنی زیر نگرانی میں انتہائی شفاف طریقے سے ڈور ٹو ڈور جاکر دونوں امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں تمام دکانداروں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی اوردونوں امیداروں اوران کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں گنتی کرکے نتائج کا اعلان کیا جس کو تجار یونین کے عبوری کابینہ کے صدر حبیب حسین مغل وکامیاب شدہ امیدوار بشیر احمد اور رنراپ امیدوارنوراحمد چارویلو نے نہ صرف تحریری طور پر قبول کیا بلکہ پریس کلب میں انتخابی نتائج کا اعلان سننے کیلئے جمع شدہ جمع غفیر سے خطاب کرتے ہوئے نوراحمد چارویلو نے جمہوری روایات کی پاسداری کی مثال قائم کرتے ہوئے ڈی پی او چترال محترمہ سونیہ شمروز خان، صدر پریس کلب ظہیرالدین اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان دونوں اداروں کی مشترکہ کوششوں اور تعاون سے الیکشن شفاف طریقے سے ہونے ممکن ہوئے اور میں دل سے تاجروں کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔چارویلو کی اس خطاب سے ان کی خاندانی شرافت،سیاسی بالیدگی اورجمہوری ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے حریف نو منتخب صدر بشیراحمداوران کی کابینہ کو مبارکباد دی بلکہ ان کے شانہ بشانہ چترال بازار کے مسائل حل کرنے کیلئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا جبکہ بشیر احمد نے بھی نوراحمد چارویلو کو ساتھ لے کر دکانداروں کو درپیش مسائل حل کرنے کی یقین دھانی کی۔ خصوصا ًچترال بازار میں انتظامیہ کی طرف سے دکانداروں کوآئے روز بھاری جرمانہ کرنے کے خلاف مشترکہ طور پر بھرپور اواز اٹھانے کے عزم کااظہار کیا۔ لیکن بعض افراد کو کامیاب اوررنراپ امیدواروں کے باہمی تعاؤن کا فیصلہ بالکل بھی نہیں بھایا اورانہوں نے فیس بک پر شفاف ترین الیکشن کے خلاف بے بنیاد پروپگنڈا کرکے باہمی تعاؤن کی فضا کو انتقام اور نفرت میں تبدل کرنیکی کوشش کی ہے۔ ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو“ محاورے کے مصداق تاجر آپس میں دست و گریبان ہوں اور ادارے آپس کے اس اختلاف سے فائدہ اٹھائیں۔۔یہ رویہ کسی بھی چترالی فرد خصوصاً دکانداروں کے مفاد میں نہیں ہے۔
میری فیس بکی دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ کم از کم ایسا لطیفہ تو گھڑیں جس میں پانچ فیصد حقیقت ہو اور چترالی قوم کے مفاد میں ہو، سو فیصد جھوٹ کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔
نوٹ: ادارے کا کالم نویس یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری ہے۔ (ادارہ)