چترال یونیورسٹی کی تعمیر سید آباد میں کیوں ضروری ہے؟/تحریر: عنایت اللہ اسیر

اشتہارات

زرعی زمینات پر تعمیرات صوبائی حکومت کے پالیسی کے خلاف ہے، چترال یونیورسٹی کی تعمیر ناقابل برداشت ہے، زمین دستیاب ہونے کے باوجود چترال یونیورسٹی کی تعمیر میں تاخیری حربہ افسوسناک ہے۔ سین لشٹ کے باشندوں پر زور زبردستی کرکے انہیں بے دخل کرنا موجود حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ بہترین محل وقوع اور مرکزی مقام پر موجود د چترال یونیورسٹی کی زرخرید وسیع رقبے اور اسکے ساتھ مستقبل کی ضروریات کے لئے غیر آباد اورکم قیمت پر رقبے کی دستیابی کے باجود سین لشت کے باشندون کو مستقل بے گھر کرکے ان کے اعلیٰ زرعی زمینات کو بلاوجہ زور زبردستی سے لینے کی کوشش حکومت وقت کو بدنام کرنے اور صوبائی حکومت کے واضح پالیسیوں کے خلاف ہے۔ حال ہی میں صوبائی کابینہ نے ایک معقول اور مناسب فیصلہ کیا ہے کہ زرعی اراضی پر سرکاری عمارات تعمیر نہیں کیے جائیں گے مگراس کے باوجود چترال میں اس کے برعکس قدم اٹھایا جارہا ہے جس سے لگتا ہے کہ چترال یا تو صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں یا پھر صوبائی حکومت کو اندھیرے میں رکھکر چترال یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے دروش چترال میں شاہراہ سے متصل 166 کنال زمین کی
دستیاب ہونے کے باوجود سین لشٹ کے زرعی زمینات کو زبردستی لیکر چترال کے محدود زراعت کو نقصان پہنچا یا جا رہا ہے۔ چھ سال کے عرصے میں اب تک سید آباد میں چترال یونیورسٹی کی عمارت بھی ابھی تک تیار ہوچکی ہوتی اور چترال کے نوجوانون کو ہنر مند بنانے کے لیے تیار کی گئی عمارت بھی فارغ ہو کر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ستعمال ہو رہا ہوتا۔ نوجوانون کو ہنر مند بنانا ہی موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی بنیادی پالیسی میں شامل ہے مگر چترال میں الٹی گنگا بہتی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چترال یونیورسٹی کے لئے نئے وائس چانسلرکی تقرری کے بعد امید پیدا ہو چکی تھی کہ یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے نئی کمیٹی بناکر چترال یونیورسٹی کے سو سالہ ضروریات کو پیش نظر رکھکر چترال یونیورسٹی کی تعمیر کسی ایک کھلے مقام پر تعمیر شرع کیا جائیگا، مگر چھہ سال بعد چترال یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے صوبائی حکومت کواندھیرے میں رکھ کر دوبارہ چترال یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے سین لشٹ کے باشندون سے زبردستی زمینات حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے حالانکہ چترال یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے زمین موجود ہے، اب صرف عمارت کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے۔ چترال یونیورسٹی کو تین مختلف علاقوں میں تقسیم کرکے تعمیر اس کے انتظامیہ کو مستقل پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے لہذاصوبائی حکومت کی طرف سے منظور کردہ 90 کروڑ کی کثیر رقم کو سید آباد میں چترال یونیورسٹی کی تعمیر پر خرچ کیا جائے جس کا پروپوزل بھی تیار کرکے پیش کی گئی ہے، سید آباد میں موجود 166
کنال اراضی میں چترال یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات ایک ہی چاردیواری کے اندر موجود ہونگے۔ اس حوالے بہت جلد پریس کانفرنس میں ان تمام سہولیات کے سید آبادمیں دستیاب ہونے کے باوجود سین لشٹ کے زرعی زمینات کو تباہ کرکے پی ٹی ائی کی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کو بے نقاب کیا جائیگا۔

نوٹ: عنایت اللہ اسیرتعمیر چترال یونیورسٹی ایکشن کمیٹی کے عبوری چیئرمین ہیں۔(ادارہ)