کنگ سلمان ونٹر ریلیف پیکج/تحریر:محکم الدین ایونی

اشتہارات

برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے حسب معمول نادار اور مستحق افرادکیلئے سردی سے بچنے کیلئے گرم بستروں اور گرم پوشاک پر مشتمل کنگ سلمان ریلیف پیکج گذشتہ ایک مہینے سے چترال کے کئی مقامات میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ سعودی حکومت کی طرف سے پاکستان کے غرباء کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اظہار اور تسلسل ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ چترال میں اس قسم کے خیراتی اشیاء مختلف پارٹیوں خصوصا مذہبی جماعتوں اور تنظیمات کے زیر نگرانی تقسیم ہوتے رہے ہیں اور بعض اوقات حکومتی سطح پر ضلعی انتظامیہ کی زیر نگرانی بھی یہ کام انجام پائے۔ لیکن ہر بار یہ دیکھا گیا کہ حکومتی اداروں کی اینوالمنٹ سوالیہ نشان بنتی رہی اور مسائل حل ہونے کی بجائے نئے مسائل کھڑے ہوئے جس سے انتظامیہ کو ایک نئے درد سر کا سامنا کرنا پڑا۔ زلزلے اور سیلاب کی حکومتی امدادی فنڈ کی تقسیم ہو یا کہ خوراک خیمے و بسترو ں کی تقسیم، لوگوں نے ہمیشہ انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھائے اور عدم اطمینان و عدم اعتماد کا اظہار کیا جنہیں بے وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ ایسے تمام امور کی انجام دہی کے دوران بڑے پیمانے پر اقرباء پروری اور بے قاعدگیاں ہوتی رہی ہیں حتی کہ بعض اوقات یہ بھی دیکھا اور سنا گیا ہے کہ امدادی پیکیج میں شامل عمدہ اشیاء مستحقین تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں غائب ہوتے رہے ہیں۔ چترال میں 2015 کے سیلاب اور زلزلے کے امدادی چیکوں کی تقسیم پر بھی متاثرین کا اعتراض ہنوز موجود ہے اور تقریبا ساڑھے چار ہزار سے زیادہ امدادی فنڈ کیلئے دی جانے والی درخواستیں انتظامیہ کے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جتنے بھی غیر سرکاری ادارے امداد تقسیم کرتے ہیں ان کا طریقہ کار قدرے شفاف اور صاف ہے اور ایسے اداروں کی طرف سے پیکیجز کی تقسیم پر کوئی بڑے پیمانے پر بے قاعدگی دیکھنے میں نہیں آتی۔ چترال کے معروف عالم دین قاری فیض اللہ سالانہ کروڑوں روپے مالیت کے راشن، گرم بسترے سمیت دیگر نان فوڈز آئٹمز تقسیم کرتے ہیں لیکن ان کے تقسیم کار پر کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ اسی طرح الخدمت فاونڈیشن، آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ، ایس آر ایس پی کی طرف سے بھی امداد تقسیم کئے جاتے ہیں لیکن ان پر کبھی بڑا سوال اٹھتے نہیں دیکھا گیا۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ادارے کسی کے دباؤ میں آکر یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر ریلیف پیکیج تقسیم نہیں کرتے بلکہ اپنے وضع کردہ طریقہ کارکے مطابق پوری چھان بین کے بعد مستحقین کی مدد کرتے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے تقسیم ہونے والے امداد میں ان امور کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ حال ہی میں ضلعی انتظامیہ چترال کی زیر نگرانی سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی طرف سے ونٹر ریلیف پیکیج تقسیم کئے گئے۔ دروش میں ان پیکیجز کی تقسیم پر ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا ہے اور دروش انتظامیہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں کے دباؤمیں آکر مستحق افراد کی بجائے پیکیجز پی ٹی آئی کارکنان میں تقسیم کئے۔ اس حوالے سے دروش میں سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور انتظامیہ دروش و پی ٹی آئی دروش کے خلاف نعرے لگائے جو کہ انتظامیہ کیلئے اچھی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے انتظامیہ کے کام میں مداخلت کو کسی صورت اچھا نہیں کہا جا سکتا۔ اسے اپنی پارٹی اور انتظامیہ کو بد نام کرنے کی غیر سنجیدہ کوشش ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ پیکیج کی تقسیم میں لوگوں کے الزامات کے مطابق اگر بے قاعدگیاں اور اقرباء پروری ہوئی ہیں تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے اور مستحق افراد کی چھان بین کرکے ان کو یہ امداد دی جانی چاہیئے۔ میری تو انتظامیہ چترال سے یہ گذارش ہے کہ اس قسم کی ریلیف تقسیم کے سلسلے میں وہ غیر سرکاری اداروں سے سبق حاصل کرے جن کے پاس بڑا عملہ تو نہیں لیکن عوامی اعتماد حاصل کرنے کا تجربہ اور طریقہ بہتر طور پر موجود ہے۔