افغانستان میں عالمی استعمار کی جنگ اور جنرل حمید گل کا کردار/تحریر: بہار احمد

اشتہارات

جنرل حمید گل پاکستان اور عالم اسلام کے ایسے معروف نام ہیں جن سے مشرق اور مغرب کی ایک بڑی دنیا واقف ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک آپ امت مسلمہ کے دردمند سپاہی، اسلام کے آفاقی پیغام کے امین اور پاکستان کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور افغان جہاد کے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اور بعض حضرات افغانستان میں امریکی لڑائی لڑنے والا پاکستان کو اسلحہ،منشیات اور دہشت گردی کے دلدل میں دھکیل دینے والا افغان جنگ کا سر خیل اور بانی سمجھتے ہیں۔ جنرل حمید گل کی برسی گذشتہ دنوں (15اگست) گزرگئی۔ اس موقع پر چند حقائق اس حوالے سے گوش گزار کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
1۔ سابق افغان حکومت اور خاص کر کمیونسٹوں کی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے اور علاقائیت و قوم پرستی کو بلوچستان اور صوبہ سرحد میں تقویت دینے اور قوم پرست تحریکوں کی پشت بانی ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے تنگ آکر ذوالفقار علی بھٹو شہید نے افغانستان کے اندر پاکستان کے حامی اسلامی جماعتوں کی قیادت اور بعد میں افغان مجاہدین کی حیثیت سے عالمی شہرت پانے والے سیاسی و مذہبی قیادت کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔جبکہ ان دنوں پاکستان کے معروف بلوچ اور پختون رہنماء اور جنگجو لیڈر کابل میں ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے افغانستان کا دورہ کیا اور افغان قیادت سے ایک اچھے ہمسائے اور ایک دوسرے کے خیر خواہ بن کر رہنے کیلئے تجاویز پیش کی کہ اپنے شمشاد ٹی وی کا رخ، جس میں ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا،پاکستان کی طرف نہ کریں، ہمارے بلوچ اور پختون قوم پرست راہنماوں کو ہمیں واپس کریں اور ہم بڑے عزت اور احترام کے ساتھ انہیں واپس لے جائینگے اور افغانستان کی مذہبی قیادت کو ہم واپس افغانستان بھیج دیں گے۔ اس پیش کش کو بڑی حقارت کے ساتھ افغان صدر نے یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ تم ملکہ برطانیہ کا بیلٹ باندھے ہوئے ہو، ضیاء الحق کو انگریزوں کی غلامی کاطعنہ دینے والے افغان حکام خود روس کی محبت اور غلامی میں اتنا گرفتار تھے کہ بار بار انھیں اکثریت کی رائے کے برخلاف افغانستان میں قدم جمانے کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ روس افغانستان میں داخل ہوا۔ لاکھوں کی تعداد میں افغانیوں نے پاکستان ہجرت کی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان کے دینی جماعتوں نے بھی افغان مجاہدین کا بھرپور ساتھ دینا شروع کیا۔یہ وہ دور تھا جب حمید گل”جنرل“ کے عہدے پر نہیں پہنچے تھے مگر اپنی ذہانت، اخلاص، کرداروعمل اور مومنانہ بصیرت کی وجہ سے پاکستان آرمی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ روس کی بھیانک تاریخ، سنٹرل ایشیاء اور افغانستان پر اس کی یلغار کو دیکھتے ہوئے دنیا ایک گوما گوں کی کیفیت سے دوچار تھا۔ اس گھمبیر صورت حال میں افغانستان کے حالات کا سہی جائزہ لینے اور سفارشات مرتب کرنے کا کام بریگیڈئر حمید گل کو سونپا گیا۔آپ نے اپنا مقالہ سنیئرجرنیلوں کی کانفرنس میں پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان افغان مجاہدین کی صحیح پشت بانی کرے تو اس کے نتیجے میں پاکستان نہ صرف اپنے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا سکتا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیاء کے اسلامی ریاستیں بھی جہاد کے نتیجے میں آزاد ہو سکتی ہیں۔ اس بات پر کچھ شرکائے محفل کو حیرانگی ہوئی مگرضیاء الحق نے کہا کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہو کر رہے گا۔ پاکستان نے افغان مجاہدین کی بھرپور سرپرستی کا فیصلہ اس وقت کیا جب امریکہ سمیت پوری دنیا سوئیت یونین کے خلاف کھلم کھلا کچھ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کر پائے تھے۔ پاکستان نے سوئیت یونین کے خلاف بھر پور مزاحمت اور مجاہدین کی بھرپور اعانت شروع کی۔ جنرل حمید گل کی افغان جہاد میں دلچسپی اور اور اسکے والہانہ عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ افغان جہادکے اضافی ذمہ داریوں کے عوض دی جانے والی الاؤنس بھی جہاد فنڈ میں جمع کرتے، جنرل حمیدگل نہ صرف خود بلکہ آپ کے بیٹے عبداللہ گل اورعمر گل بھی افغان جہاد میں بہ نفس نفیس شریک رہے۔ آپ کے مثبت کردار وعمل کے وجہ سے افغان مجاہدین کی اکثریت جنرل حمید گل اور ان کے خاندان سے بہت عقیدت اور محبت سے پیش آتے ہیں اور پوری دنیا کے سیاسی اور غیر سیاسی مذہبی قیادت حتی کہ غیر جہادی سمجھے جانے والے اسماعیلی مسلک کے روحانی پیشوا ہز ہائنس آ غاخان نے بھی آ پ کو فیصل آباد سرینہ ہوٹل کہ افتتاح کے موقع پر خصوصی طور پر مدعو کر کے آپ کے ذریعے افغان مجاہدین کی بھرپور مالی مدد کی، آپ کو نہ صرف افغان مجاہدین، طالبان قیادت اور وسطی ایشیاء کے مسلمان علماء مسلمانوں کا نجات دھندہ سمجھتے ہیں بلکہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام اور دیوار برلن کے خاتمے کے بعد اس کا ٹکڑا جرمن حکومت نے آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں اور کمیونزم کے خاتمے کے لئے آپ کے کردار کے اعتراف میں آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ جہاد اور جنرل صاحب کے مخالفین اکثریہ طعنے دیتے ہیں کہ یہ افغان جہاد ڈالروں کی خاطر لڑی گئی مگر تاریخ گواہ ہے کہ امریکی حمایت سے پہلے افغان مجاہدین نے جہاد شروع کیااور امریکہ نے ڈالر کے بجائے اسلحے کے ذریعے سے تعاؤن کیا، ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق اور پروفیسر،ھنٹنگٹن اپنی کتاب تہذیبوں کے تصادم میں لکھتے ہیں کہ ”افغان مجاہدین کی جانی قربانی، عربوں کی مالی اور امریکہ کی تیکنیکی(ٹیکنالوجی) تعاون سے سویت یونین کو شکست ہوئی“۔
2۔ ہمارے بہت سے لکھاری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ سویت یونین گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا اور نہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغان جہاد پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی تحفظ کے لئے تھی، مگر اس بات کا اعتراف خود سویت یونین کے صدر میخایل گورباچوف نے اپنی کتاب ”پرسٹرائیکا“میں کی ہے کی روس افغانستان میں قدم جمانے کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کو پاکستان سے علیٰحدہ کرنا چاہتا تھا۔ اگر غور کریں تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ روس کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی ہماری قوم پرست اور علاقائی سیاست کو فروغ دینے والی جماعتوں نے نہ صرف ان کا خیر مقدم کیا تھا بلکہ جلوس نکال کرسرخ انقلاب کے نعرے بھی لگاتے تھے، بہت سارے قوم پرست رہنماء اور بلوچ علیحدہ گی پسند کابل اور ماسکو کا باقاعدگی کے ساتھ یاترا کرتے، تربیت لیتے اور یہاں تک افغان مجاہدین کے خلاف کمیونزم کے بچاؤکے لئے لڑتے رہے جب کہ پاکستان کے دینی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان افغان مجاہدین کے شانہ بہ شانہ لڑتے رہے، روس کی شکست کے بعد افغان جہاد کے مخالفین عالمی قوت امریکہ کی حمایت کرنے لگے جبکہ افغان مجاہدین بے سروسامانی کے باوجود امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ پاکستان کے اندر اور عالمی میڈیاء پر بھی جنرل حمید گل افغان مجاہدین کی بھر پور حمایت اور تر جمانی کا فریضہ انجام دیتے رہے جس کی وجہ سے نہ صرف اپنے بلکہ امریکہ اور امریکی گماشتے جنرل حمید گل کے سخت خلاف ہوگئے۔ امریکہ اور برطانوی حکومت نے آپ کو نا پسندیدہ شخصیت بھی قرار دیا، میڈیا نے آپ کو طالبان اور دہشت گردوں کے حامی اور ساتھی قرار دیکر کردار کشی شروع کی مگر آپ باطل کے خلاف اور حق کے خاطر لڑتے اورہر بت خانے میں اپنی آخری سانس تک حق کی اذان دیتے اور پاکستان کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ اور عالم اسلام کے اسلامی تحریکوں کی ترجمانی کا کردار ادا کرتے رہے۔


3 افغانستان سے منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ اور دہشت گردی سے یقینا پاکستان بہت متاثر ہوا، لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ افغان مجاہدین اور طالبان حکومت نے کبھی بھی پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت نہیں کی اور پاکستان کے تمام دینی جماعتوں نے پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لئے جانی اور مالی قربانی سے کبھی بھی دریغ نہیں کیا۔ منشیات کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی اداروں کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پوست اور منشیات کا کاروبار صرف طالبان دور میں ختم ہوا تھا مگر امریکی اور اتحادی افواج کے آنے کے بعد منشیات کا کاروبار پھر عروج تک پہنچ گیا۔پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے لکھتے ہوئے اجمل خٹک اور افغان صدرنجیب اللہ کے دست راست اور قریبی ساتھی جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ”فریب نا تمام ” میں لکھتے ہیں کہ ”پاکستان میں دہشتگردی افغان حکومت کی ایماء پر قوم پرست جماعتوں نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ذولفقارعلی بھٹو کوقتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا بلکہ حیات شیرپاؤ کی شہادت بھی قوم پرستون کے ہاتھوں ہوئی تھی“۔صوبہ سرحد میں دوسرے چھوٹے موٹے واقعات کا تذکرہ اس کے علاوہ کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے اندر خود کش حملے اور سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئے جن کا براہ راست تعلق جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں سے تھا۔ 9/11کے واقعے کے بعد پاکستان کے قریب ترین دوست اور ہمسایہ امارت اسلامی افغانستان کے خلاف بلا جواز امریکی جنگ اور تباہی میں جنرل مشرف کے”فرنٹ مین“ کا کردار ادا کرنے کا کوئی آئینی،قانونی اور اخلاقی جواز نہیں تھا۔ جنرل مشرف نے ڈر کے مارے چند کوڑیوں اور ڈالروں کی خاطر نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی امن، سلامتی، معیشت اور قومی غیرت و حمیت کا امریکہ کے ہاتھوں جو سودا کیااس کے بدلے پاکستان کو دی جانے والی امداد نہایت قلیل جب کہ پاکستان کی جانی اور مالی خسارہ سینکڑوں گنا زیادہ رہا۔ دہشت گردی خلاف لڑی جانے والی اس نام نہاد امریکی جنگ میں جنرل مشرف نے اپنے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گردی اور خود کش حملوں کو بڑھاوا دیا۔ اپنے ہی ہاتھوں تربیت یافتہ لوگوں کو مجاہد سے دہشت گرد بنا دیا، دینی مدارس کے معصوم طلبا ء و طلبات اور عام لوگوں کی بے رحمانہ اور ماؤرائے عدالت قتل، ہزاروں لوگوں کی جبری گمشد گیوں اور ماؤرائے عدالت قید و بندش جیسے غیرآئینی اقدامات نے ملک و ملت کو نفسیاتی، معاشی اور سیاسی مسائل کے ایسے دلدل میں دھکیل دیا کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اسلئے شروع دن سے جنرل حمید گل نے بار بار کہا کہ9/11ایک بہانہ،افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ اس لیے آپ اپنے سابقہ شاگرد اور ماتحت افسر جنرل مشرف کے ساتھ انتہائیی گہرے تعلق اور دوستی کے باوجود ان کے خلاف ڈٹ کر میدان عمل میں نکل آئے۔پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی شخصیت قرار دے کر ہر فورم پر جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی کھلم کھلا مخالفت کی،یہا ں تک کہ وکلاء تحریک میں آپ کو اپنے بیٹے کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔
جنرل حمید گل میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا تھا اور پاکستان کو امت مسلمہ کے سالار کے طور پر دیکھنے کے متمنی تھے اورآخر وقت تک اسی جہدوجہد میں مگن رہے۔