دہشت گردی کیخلاف جنگ کو سیاست کی نذر کیا گیا، اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کئے ہوئے ہیں/ڈی جی آئی ایس پی آر

پشاور(چ،پ) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔
پشاور میں اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکات یہ تھا کہ اس حوالے سے بیانیہ بنایا جائے گا لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و ملٹری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں اور غزوہ بدر میں سرور کونین ﷺ کبھی جنگ نہ کرتے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سال 2024 میں خفیہ اطلاعات پر کے پی میں 14ہزار 535 آپریشنز کیے گئے اور 2025 میں اب تک 10ہزار 115 کارروائیاں کی گئیں رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سال سے زیادہ ہے۔
ڈی جی آئی سی پی آر نے کہا کہ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوا، دشہت گردی کے معاملے پر سیاست بھی ایک وجہ ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزا کیوں نہیں ملیں؟
کیا آج ہم ایک بیانیے پر کھڑے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت افغانستان کو دہشتگردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے اس لیے گزشتہ کئی سال سے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آئی، صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ انکی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ سہولت کاروں کے پاس صرف تین چوائس ہیں۔ سہولت کار خود خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں، سہولت کار خارجیوں کے خلاف ریاست کے ساتھ مل کر لڑیں اور اگر ایسا نہیں کرنا تو سہولت کار پاک فوج کے ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔
دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بنیادی طور پر پولیس کا کرنے والا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام دہشتگردی کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔