عشریت کے جنگل کی رائلٹی کے مد کروڑوں روپے خرد برد کئے گئے ہیں،مقامی لوگوں کو حق دلایا جائے/عمائدین کا پریس کانفرنس

مقامی لوگوں کو انکے حق سے محروم رکھنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی فعل ہے

اشتہارات

چترال (محکم الدین) دروش کے نواحی گاوں عشریت کے رہائشی میر اعظم ایڈوکیٹ، خوش دین، خوش زمان،ممتاز،گل امین اور محمد عمر وغیرہ نے چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، صوبائی محتسب خیبر پختونخوا، ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اور چیف سیکرٹری سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ عشریت کے جنگل کمپارٹمنٹ نمبر ایک تا دس کی تیس کروڑ روپے رائلٹی کے خرد برد میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کاروائی کرکے مقامی لوگوں کو ان کا حق انہیں دیلایاجائے۔ گذشتہ روز میڈیا سے خطاب میں انہوں نے چترال کے دو سابق ڈی سیز، دروش کے سابق اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر سرکاری ذمہ دار پر الزام لگایا کہ غیر قانونی طور پر خائستہ الرحمن، سید احمد،سجاد احمد اور غیاث الدین کے ساتھ ساز باز کرکے جھوٹی رپورٹ،جعلی حساب اور جعلی دستاویزات کے ساتھ بد دیانتی اور خیانت کرکے عدالتی حکم امتناعی کے باوجود بغیر کسی مختار نامہ کے تیس کروڑ سے زیادہ رائیلٹی کی رقم کی ادائیگی کی ہے،جبکہ خائستہ رحمن نے رائیلٹی ہولڈر عوام کی بجائے صرف پینتیس افراد سے جنگل کے بارے میں معاہدہ کیا ہے۔ جبکہ اس مقابلے میں چراغ الدین نے 188 افراد کے ساتھ اور حاجی انعام اللہ ایڈوکیٹ نے 2500 افراد کیساتھ نہ صرف ایگریمنٹ کیا بلکہ اہلیان عشریت کو ایڈاوانس میں لاکھوں روپے بھی ادا کئے۔ اس کے باوجود چراغ الدین اور حاجی انعام اللہ ایڈوکیٹ کے حسابات کو بھی خائستہ الرحمن کے کھاتے میں ڈال کر کروڑوں روپے ان کو ادا کئے گئے جو کہ محکمانہ کرپشن کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایگریمنٹ کے علاوہ ہمارے پاس 397 افراد کا رجسٹرڈ مختار نامہ بھی موجود ہے اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر چترال کی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ڈپٹی کمشنر سے جب رائیلٹی کی ادائیگی مطالبہ کیا جاتا ہے توان کی طرف سے غیر قانونی تقاضے سامنے آجاتے ہیں۔