اورغوچ چترال میں بچی کے مبینہ اغوا کی خبر جھوٹ نکلی، پولیس تفتیش میں حقائق سامنے آگئے

سوشل میڈیا میں بلا تحقیق خبر جاری کرنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے، عوام میں پریشانی

اشتہارات

چترال(چ،پ)اورغوچ سے بچی کے اغواء کی جھوٹی خبر، پولیس نے حقیقت سامنے لے آئی۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز چترال ٹاؤن کے نواحی گاؤں اورغوچ سے ایک بچی کے اغواء کی جھوٹی خبر سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔سوشل میڈیا میں ایک شخص کی تصویر مبینہ اغواء کار کے طورپر جاری کیا گیا۔ پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو اپنی تحویل میں لے لیا اور معاملے کی تفتیش شروع کی۔ پولیس کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اورغوچ سے ایک بچی کو اغواء کرنے کی اطلاع پا کر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مبینہ اغواء کار اخون زرین ولد خان کریم سکنہ درم سیر دمیل کو تھانہ لاکر حسب ضابطہ تفتیش کی جس پر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ پولیس کے مطابق مذکورہ شخص کباڑ کا کاروبار کرتا ہے اور گاؤں گاؤں جاکر کباڑ اکھٹا کرتا ہے، حسب معمول وقوعہ کے روز کباڑ اکھٹا کرتے ہوئے لنک روڈ اورغوچ نزدیک عارف احمد کے گھر پہنچ کرجہاں ایک بچی اپنی گھر کے سیڑھی میں بیٹھی ہوئی پاکر مذکورہ کباڑ والے بچی سے گفتگو کرنے کے دوارن مذکورہ بچی کی ماں یہ دیکھ کر پریشان ہوئی اپنی بچی کو گھر کے اندر لے گئی۔ بعد میں بچی کی ماں نے بچی کے اغواء کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ کباڑ والے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے موقع سے جانے کو کہا، اس دوران گاؤں کے لوگ بھی اکھٹے ہوکر کباڑئیے کو گھیرے میں لے لیا اور پولیس کو اطلاع دی جبکہ اس دوران مختلف لوگوں نے اس شخص کی تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر بطور اغواء کار ڈال دئیے۔ پولیس تفتیش میں مذکورہ شخص کے سابقہ ریکارڈ کو بھی چیک کرنے پر وہ کسی مقدمے میں ملوث نہیں پا یا گیا، اس بچی کے خاندان والوں نے بھی واقعے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیدیا۔
سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور بلاتحقیق سنسنی پھیلانے کی غرض سے مواد شائع کرنے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے جس کا معاشرے پر منفی اثر پڑنا واضح ہے۔ ایسے واقعات میں بلاتحقیق اور فوری طور پر کسی کی تصویر یا مبہم خبر کو سوشل میڈیا کے ذریعے سے بڑھانے کے بجائے احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کا پتہ لگانا اولین ترجیح ہونی چاہیے تاہم دیکھنے میں آرہا ہے کہ سوشل میڈیا میں اپنے پیجز کی پروموشن کے لئے ایسے مواد دھڑادھڑ اور بغیر تحقیق کے شائع کئے جاتے ہیں جن سے جہاں سوشل میڈیا میں سنسنی پھیل جاتی ہے مگر دوسری طرف لوگوں کو شدید اذیت اور بد نامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔