گرین لشٹ سے تعلق رکھنے والے تنویر ضیاء کی خودکشی شدید ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے،میرے ساتھ انصاف کیا جائے/ضیاء الحق

اشتہارات

چترال(چ،پ)نوڑ گرین لشٹ سے تعلق رکھنے والے کم عمر طالبعلم تنویر ضیاء ولد ضیاء الحق کی خود کشی کے اندوہناک واقعے نے نیا موڑ لے لیا، متوفی کے والد نے اپر چترال کے قصبے ریشن کے چند دکانداروں پر دعویداری کرتے ہوئے ڈی پی او اپر چترال کوباضابطہ درخواست دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 22جنوری کو اپر چترال کے علاقے پر پچ میں ایک 13/14سالہ لڑکے نے دریائے چترال میں چھلانگ لگا کر خود کشی کیا جسکی لاش بعد ازاں قریبی گاؤں برنس کے مقام پر بر آمد کیا گیاکرکے آبائی علاقے میں تدفین کی گئی۔ اس حوالے سے متوفی کے والد نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اپر چترال کو با ضابط درخواست دیکر راغین ریشن بازار سے تعلق رکھنے والے کم از کم چھ (6) دکانداروں پر دعویداری کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ مذکورہ دکانداران نے مورخہ 21جنوری کو مبینہ طور پر اسکے کمسن بیٹے پر چوری کا بے بنیاد الزام لگایا اور اسے بازار میں زدو کوب کیا، بعد ازاں اسے گرین لشٹ پولیس چوکی کے حوالے کیا گیا جہاں پر مبینہ طور پر پولیس نے تنویر ضیاء کو تین گھنٹے تک اپنے پاس رکھا۔ضیاء الحق نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس وجہ سے انکا کمسن بیٹا شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوا اور اسی ڈپریشن کی وجہ سے اگلے روز پرپچ پل سے دریا میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، اس دلخراش واقعے کی وجہ سے بذات خود انہیں بھی عارضہ قلب کا سامنا کرنا پڑاہے۔ انہوں نے متذکرہ دکانداروں کے خلاف کاروائی اور چوکی انچارچ کے خلاف محکمانہ کاروائی کے لئے درخواست دی ہے۔
چترال پوسٹ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے متوفی تنویر ضیاء کے والد ضیاء الحق نے کہا کہ انکے اور انکے خاندان کے ساتھ ظلم ہوا ہے، ایک معصوم کی جان لی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ پولیس نے ایک معصوم کو ناکردہ جرم میں کم از کم تین گھنٹے چوکی میں روکے رکھا گیا اور اپنا نمبر بنانے کے لئے ریشن میں ہوئے چوری کے ہر ایک واقعے کو میرے معصوم بیٹے کے سر تھونپا گیا جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے کمسن بیٹے کو شدید ذہنی اذیت اور دباؤ کا شکار کیا گیا جسکی وجہ سے انہوں نے اپنی جان لینے کا انتہائی اقدام اٹھایا۔ انہوں نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ اس سلسلے میں انکی داد رسی کی جائے۔
درایں اثناء اس واقعے کو لیکر سوشل میڈیا میں مرحوم تنویر ضیاء اور اسکے خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کو قانون کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں اس نوعمر کو گرین لشٹ پولیس چوکی میں لانے اور پولیس کی زیر سرپرستی مبینہ جرگے کی تفصیلات بھی شیئر کئے گئے ہیں۔