چترال کی سڑکوں کی حالت ناگفتہ،جنگلات کی کٹائی,معدنیات کی غیرقانونی لیزنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی/چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ

اشتہارات

چترال(بشیرحسین آزاد)چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی بار اور بینچ کو اپنے آپ سے الگ نہیں سمجھا کیونکہ بار اور بینچ ایک ہی خاندا ن کے افراد کی طرح ہیں جن کے درمیان خوشگوار تعلق کار سے مقدمات میں مصروف اور عام عوام دونوں کو فائدہ ہوتا ہے اور اس تعلق کو مضبوط بنانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس حقیقت کی بنا پر وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وکلاء کو درپیش مشکلات دراصل عوام کے بھی مسائل ہیں اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے۔ پیر کے روز لوئر چترال میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان کی اعلیٰ درجے کی حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اقتدار کی کرسیوں پر متمکن افراد انہیں خصوصی طور پر رحم کی نظر سے دیکھیں اور ان کے مسائل حل کریں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چترال میں پسماندگی ابھی تک برقرار ہے اور خصوصاً سڑکوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے جن پر مسلسل سفر کرنے والوں پر ترس آتا ہے، اس کا مشاہدہ انہوں نے بذات خود گزشتہ سال اپنے دورہ چترال کے موقع پر کرتے ہوئے پشاور واپسی پر انہوں نے این ایچ اے کے اعلیٰ حکام کو اس بارے میں سخت ہدایات جاری کی تھی اور40 کروڑ روپے بھی اس ضمن میں حکومت نے جاری کردیا لیکن کام معیار اور رفتار کے لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جنگلات کی بے دردی اور بے رحمی سے کٹائی انتہائی تشویش ناک بات ہے اور مائننگ کے نام پر ماحول کو تباہ کرنے کا سلسلہ بھی تشویشناک امر ہے جس کا نوٹس لیا گیا ہے اور متعلقہ حکام کو اس بات کا سختی سے پابند ٹھہرایا جائے گاکہ وہ اس سلسلے کو بند کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کریں تاکہ جنگلات کو بچایا جاسکے جوکہ اس صوبے کی ماتھے کا جھومر اور حسن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دریائے سوات سمیت دوسرے دریاؤں کی بحالی کے لئے قدم اٹھائے گئے ہیں اور دریاؤں کے کنارے ریت اور بجری نکالنے کا بھی نوٹس لیا گیا ہے جوکہ تشویشناک صورت اختیار کرگیاہے، زمینی حقیقت بدقسمتی سے اس طرح تھی کہ تاتاری اور منگول حملہ آوروں کی یاد تازہ ہوئی جولوٹ مار وہ مفتوحہ علاقوں کے ساتھ کرتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنی نسل کو ایک ایسی قدرتی ماحول دے کرجانا ہے جوکہ آلودگی اور بربادی سے پاک ہو اور ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہے کہ ہمارا جینا اورمرنا اس مملکت پاکستان کے لئے ہونا چاہئے اور ہمیں اس کی عز ت اور آبرو کو سب چیزوں پر فوقیت دینا ہے اور ہر چیز کوروپے پیسے کی ترازو میں نہیں تولا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ غیر قانونی اور تباہ کن مائننگ پر انہوں نے پابندی لگادی ہے، پہاڑوں پر بڑے پیمانے پر شجرکاری کے ذریعے ماحول کی بحالی کیلئے متعلقہ حکام کو پابند بنایا جارہا ہے۔ جسٹس قیصر رشید خان نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اگلے ہفتے ہی ہائی کورٹ کا جج چترال میں سرکٹ کورٹ میں مقدمات سننے کے لئے آئے گا جس کے لئے وکلاء کو اپنی حاضری یقینی بنانی ہے اور وکلاء برادری ان کے ساتھ مل کر عوام کے مسائل میں کمی لانے میں مدد دیں۔ انہوں نے چترال میں سرکٹ کورٹ میں ویڈیو لنک کے نظام کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔ اس سے قبل ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ظفر حیات ایڈوکیٹ اور صوبائی بار کونسل کے ممبر سید فرید جان ایڈوکیٹ نے چترال میں جوڈیشری سے متعلق مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ چترال میں 2019 سے سرکٹ کورٹ کا انعقاد نہ ہونے، سرکٹ کورٹ میں ویڈیو لنک کے نظام کو جدید بنانے، ایڈیشنل کمشنر اور بورڈ آف ریونیو کے مقدمات کیلئے چترال میں کیمپ کورٹ منعقد کرنے اور سرکٹ کورٹ میں مقدمات کے سلسلے میں سیشن جج کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے کا مطالبہ کرنے کے علاوہ دروش میں ایڈیشنل سیشن جج کورٹ اور گرم چشمہ میں سول کورٹ قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے ضلع کے مختلف علاقوں میں معدنیات کی لیز میں مقامی افراد کی محرومی اور شاہ بلوط کے جنگل کی بے دردانہ کٹائی کو رکوانے کا بھی مطالبہ کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر لوئر چترال انوار لحق اور ڈی پی او سونیہ شمروز خان بھی موجود تھے۔
بعدازاں چیف جسٹس نے چترال میں زیر تعمیر جوڈیشنل کمپلیکس کا بھی دورہ کیا۔