پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی، پارٹی کے اندرونی اختلافات، کرپشن کے الزامات و دیگر امور/جنرل سیکرٹری شہزادہ فیصل صلاح الدین کا خصوصی انٹرویو

اشتہارات

پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری شہزادہ فیصل صلاح الدین نے کہا ہے کہ چترال کی ترقی میں موجودہ حکومت نے جو دلچسپی دکھائی ہے وہ ماضی میں کسی نے نہیں کی، ہمارے سیاسی مخالفین کو بھی یہ حقیقت معلوم ہے مگر سیاسی مخالفت کی وجہ سے اچھے کاموں کا اعتراف نہیں کرتے جوکہ افسوسناک ہے۔ چترال پوسٹ نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف لوئر چترال کے ضلعی جنرل سیکرٹری کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جس میں پارٹی کے تحصیل صدر ارشاد مکرر اور جنرل سیکرٹری انجینئر بہرام سید بھی موجود تھے۔

چترال پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ فیصل صلاح الدین نے کہا کہ موجودہ ضلعی قیادت نے ویلج کونسل کی سطح پر کابینہ سازی کرکے صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے، ہماراتنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہے البتہ چھوٹے موٹے سیاسی اختلافات ہر جماعت میں ہوتے ہیں، اسوقت پی ٹی آئی ایک بہت بڑی سیاسی قوت ہے اور ظاہری بات ہے کہ کچھ اختلافی امور ہیں مگر ایسے بھی نہیں کہ وہ تنظیمی معاملات پر ہاوی ہوں۔ انہوں نے کہا ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، ہم باہم بات چیت اور مشاورت سے اختلافات کو ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ شہزادہ صلاح الدین نے انٹرویو میں مزید کیا کہا؛

چترال پوسٹ: آپکے پارٹی کی حکومت ہے، حکومتی کارکردگی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

فیصل صلاح الدین: سب سے پہلے میں چترال پوسٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے آج مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا، میں چترال پوسٹ کو خراج تحسین پیش بھی پیش کرتا ہوں کہ چترال سے کم از کم ایک اخبار چھپ کر قارئین تک پہنچتا ہے۔ اسکے بعد آپکے سوال کی طرف آتے ہیں۔ مرکز میں پہلی بار ہماری حکومت آئی ہے جبکہ صوبے میں یہ ہمارا دوسرا ٹرم ہے، اسوقت مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں ہماری حکومت ہے۔ کارکردگی کو جانچنے کے لئے ہمیں تھوڑا ماضی کو بھی دیکھنا پڑیگا، کیونکہ ماضی کے ستر سالوں میں ہمیں ایسی سیاسی قیادتیں ملیں جنکا وژن محدود تھا، وہ وقتی طور پر لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے شارٹ کٹ استعمال کرتے تھے، کوئی طویل المیعاد اور دورس منصوبہ بندی نہیں رہی، ملک میں لیڈر شپ بدعنوانی میں ملوث رہی، انکے دیکھا دیکھی اداروں میں بھی ایسا ہی کلچر پروان چڑھا، یہاں تک کہ عام آدمی بھی اپنا کام نکالنے کے لئے شارٹ کٹ استعمال کرنے کا عادی بن گیا۔ اس طرح ہمارے ادارے کمزور ہوگئے،اداروں میں بھی یہ رواج رہا۔ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑا جو بڑھتا گیا،ان باتوں سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ ہمیں حکومت ملی، مگر چونکہ ہماری قیادت عمران خان جیسے وژنری لیڈر کے ہاتھ میں ہے اسلئے حکومتی ٹیم نے روز اول سے پائیدار اور دور رس اقدامات پر فوکس کیا ہوا ہے، اصلاحات متعارف کئے جارہے ہیں، کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، ظاہری بات ہے کہ تبدیلی ایک دم سے نہیں آئے گی، یہ وقت طلب عمل ہے اور انشاء اللہ قوم دیکھے گی کہ جو اقدامات اس حکومت نے اٹھائے ہیں انکے دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ آپ پولیس کو دیکھیں، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو لے لیں، ان اداروں میں اصلاحات کی وجہ سے کافی بہتری آئی ہوئی ہے۔ ان حقائق کی بنیاد پر ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے متعین کردہ اہداف کی طرف کامیابی سے گامزن ہے، ہم مطمئن ہیں اور انشاء اللہ ہمارے ملک کا مستقبل تابناک ہے۔

چ،پ: آپ تو مطمئن ہیں مگر ملکی صورتحال سے عام لوگ مطمئن نہیں ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے، معاشی سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں؟

فیصل: مہنگائی سے واقعی لوگوں کو تکلیف ہے، اس کا ہمیں بھی احساس ہے، ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہمارابھی ان چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ایک بات تو یہ ہے کہ جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ وقتی طور پر لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے ماضی کی حکومتوں نے اکثر ایسے اقدامات کئے جنکا براہ راست منفی اثر قوم پر اب بھی پڑ رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جسکا اثر ہم پر بھی پڑ رہا ہے۔ قوم پر سخت وقت آتے ہیں، ان حالات سے نبردآزما ہونے اور حالات کا مقابلہ کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت عوام کو ریلیف دینے سے غافل نہیں، کئی ایسے منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن سے عام آدمی کو فائدہ پہنچ رہا ہے، احساس پروگرام کو دیکھیں، صحت کارڈ کی سہولت کو دیکھیں جس میں دس لاکھ تک کا علاج مفت فراہم ہوتا ہے۔ انشاء اللہ یہ معاشی مسائل اور مشکلات حل ہونگے۔

چ،پ: چترال میں آپ اپنی پارٹی کے حکومت کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

فیصل: چترال میں ہماری کارکردگی بالکل واضح ہے اور سب کے سامنے ہے، میں اور میری پارٹی حکومت کی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں اور چیلنج کرتے ہیں کہ ستر سالوں میں اگر کسی بھی حکومت نے موجودہ حکومت سے زیادہ کام کیا ہو تو وہ سامنے لائیں۔ البتہ ہمارا چترال کے لوگوں سے تھوڑا گلہ بھی ہے، ہمیں نمائندگی کا موقع نہیں دیا، ماضی کے دونوں انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیداروں کو کامیاب نہیں کرایا۔ مگر اسکے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے مرکزی و صوبائی قائدین نے چترال کو نظر انداز نہیں کیا۔پچھلے سیشن میں چترال کو خواتین کی مخصوص نشست دیدی اور چترال کو ترقی کے عمل میں شامل کیا، اس بار اقلیتی سیٹ چترال کو دیکر ایک بار پھر چترال کو ترقی کے راستے پر ڈالا۔ اسکے بعد چترال کو سینیٹ میں نمائندگی دینے کا اعزاز بھی ہماری پارٹی کو حاصل ہے۔ تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ کونسی پارٹی ہے جو ہم سے بڑھ کر چترال کی خدمت کی ہے۔

چ،پ: آپ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چترال کی سب سے بڑھ کر خدمت آپ نے کی ہے؟ حالانکہ دیگر حکومتوں میں بھی یہاں پر نمایاں کام ہوئے ہیں۔

فیصل: بالکل دیگر حکومتوں نے بھی کام کیا ہے، خاص کر جنرل پرویز مشرف کے دور میں لواری ٹنل شروع کیا گیا، اے این پی کی حکومت میں چترال بائی پاس روڈ بنا، دروش پائپ لائن بھی بنا، ہم حقیقت پسند اور جمہوری لوگ ہیں، جس نے بھی کام کیا ہو ہم اسکو مانتے ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جو منصوبے منظور کئے ہیں، جو خدمات کئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔چترال کی ہمہ جہت ترقی کیلئے ہماری حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں انکا میں ذکر ضرور کروں گا۔ اس وقت سیاحت کے ذریعے چترال کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے متعدد اقدامات ہورہے ہیں جن میں سڑکوں کی تعمیر، سیاحتی مقامات کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی فراہمی وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے منصوبوں کونہیں چھیڑتے ہیں، میں جو بڑے منصوبے تحریک انصاف کے دور میں چترال میں ہوئے انکا ذکر کروں گا۔ چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کااعزاز ہماری حکومت کو حاصل ہے، چترال کو یونیورسٹی ہماری حکومت نے دیا،دروش کو تحصیل کا درجہ اور پھر ٹی ایم اے کا قیام ہماری حکومت نے کیا، موڑکہو کو الگ تحصیل اور ٹیم ایم اے کاد رجہ تحریک انصاف نے دیا، ارندو اور شاہ سلیم میں بزنس پورٹس کی منظوری، ریسکیو 1122کا قیام، گرلز ڈگری کالج ایون کی منظوری، دروش ہسپتال کی اپگریڈیشن، اپر چترال میں موژگول پل، لون گہکیر پل، ایون پل، اوسیک دروش پل، سینگور پل کی منظوری اور ان پر کام ہماری حکومت میں ہوا، ریشن بجلی گھر کی بحالی، پیڈو کے ذریعے چترال کے مختلف علاقوں میں درجنوں چھوٹے چھوٹے بجلی گھروں کی تعمیر،جنگلات کی کٹائی پر پابندی، جنگلاتی رقبے کو بڑھانے کے لئے فارسٹریشن پراجیکٹ، دروش میں لاوی پاؤر پراجیکٹ، مڈک لشٹ ٹوارزم پراجیکٹ، چترال اکنامک زون/ماربل سٹی وغیرہ یہ ایسے بڑے منصوبے ہیں جن پر اربوں روپے کی لاگت آئی ہے، اسکے علاوہ ہماری حکومت نے دروش اور گرم چشمہ میں بوائز ڈگری کالجز کی منظوری دی ہے، گرلز ڈگری کالج دروش میں کلاسز کے اجراء کیا ہے۔ کالاش ویلیز کی ترقی کے لئے ”کالاش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان بڑے بڑے منصوبوں کے علاوہ کروڑوں روپے کے منصوبے تقریباً ہر گاؤں میں کئے گئے ہیں، کئی سکولوں کو اپگریڈ کیا گیا ہے،پہلے سے موجود کالجوں میں اضافی سہولیات فراہم کی گئیں،آبپاشی، آبنوشی کے منصوبے، دیہی سڑکوں، گلیوں کی پختگی وغیرہ کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ ان کاموں کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر کسی اور حکومت نے ہم سے زیادہ چترال کی خدمت کی ہے تو وہ اپنا ریکارڈ بھی سامنے رکھے۔

چ،پ: شہزادہ صاحب لگتا ہے کہ نئے پاکستان میں بھی پرانے پاکستان کی طرح کام ہوتے ہیں، مثلاً ترقیاتی کاموں کی رفتار سست ہے، اداروں میں سروس ڈیلیوری سے عوام خوش نہیں،نئے اور پرانے پاکستان میں آپکو کونسا خاص فرق نظر آرہا ہے؟

فیصل: دیکھیں جی! تبدیلی یکدم نہیں آتی، اصلاحات متعارف ہو کر نتائج دینے میں وقت لگتا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے اصلاحات متعارف کئے ہیں، کئی شعبوں اور اداروں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، اس سے انکار ممکن نہیں مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اداروں میں ایک سسٹم موجود ہے، کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے وہ ایک ڈگر پر چل رہے ہیں، اداروں کے اہلکار ایک کلچر میں آگے بڑھے ہیں، اب جب ہم تبدیلی لارہے ہیں تو اس سے آشنا ہونے میں ٹائم تو لگے گا لیکن حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ نئے پاکستان اور پرانے پاکستان میں فرق ان تبدیلیوں سے صاف ظاہر ہے۔ آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو لے لیں، پہلے کوئی شخص ایس ایچ او سے بات نہیں کر سکتا تھا، کسی کی شنوائی نہیں ہوتی تھی، مگر اب پولیس کی کارکردگی میں واضح فرق آئی ہے، اسی طرح آپ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو لے لیں، انکی مانیٹرنگ کا فعال نظام موجود ہے، پہلے اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے تھے مگر اب یہ ممکن نہیں، جب ہماری حکومت آئی تو 75ہزار سے زائد ایسے اساتذہ کی نشاندہی ہوئی جنہوں نے کبھی ڈیوٹی ہی نہیں کی مگر اب یہ ممکن ہے،محکمہ صحت کو دیکھ لیں، ہمارے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ہوتے تھے، اب ہسپتالوں میں ڈاکٹرز موجود ہیں، بی ایچ یوز میں ڈاکٹرز موجود ہیں۔ یہی نئے اور پرانے پاکستان میں فرق ہیں۔

چ،پ: شہزاہ صاحب! آپ موجودہ حکومت میں چترال کے سڑکوں پر توجہ کی بات کر رہے ہیں مگر لواری ٹنل کے اندر کافی کام باقی ہے، چترال سائیڈ میں اپروچ روڈ کا کام رکا ہوا ہے، اسی طرح کالاش ویلیز، شندور اور گرم چشمہ روڈز اعلانات کی حد سے آگے نہیں بڑھے، کیا یہ سب کچھ آپکے دعوؤں کی نفی نہیں؟

فیصل: لواری ٹنل کے اندر الیکڑیفکیشن اور سیفٹی کا کام باقی ہے، اس حوالے سے اور چترال سائیڈ کے اپروچ روڈ کی تکمیل کے حوالے سے ہم نے وفاقی وزیر مراد سعید صاحب سے بات کی ہے، چیف منسٹر صاحب کے نوٹس میں یہ بات لائی ہے۔ سنیٹر فلک ناز چترالی صاحبہ نے بھی اس مسئلے کو سینیٹ میں اٹھایا، اپروچ روڈ میں مسئلہ یہ ہوا کہ وہ متعلقہ کمپنی کے اندرونی چپقلش کی وجہ سے مسئلہ پیش آیا، اسمیں فنڈز کی بندش وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن اب جلد ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ باقی چترال کے اندر جو روڈز ہیں مثلاً شندور روڈ، کالاش ویلیز روڈ اور گرم چشمہ روڈ، ان کی منظوری دی جاچکی ہے، اب ضابطے کی کاروائیوں میں وقت لگتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت کوئی زبانی دعویٰ یا اعلان کرتی ہے بلکہ عملی کام پر یقین رکھتی ہے، یہ سڑکیں اینی ایچ اے کے حوالے ہوئی ہیں اور ان کی تعمیر کے حوالے سے اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے۔

چ،پ: چترال سی پیک الٹر نیٹ روٹ میں شامل تھا، اسے رول بیک کرنے کی اطلاع ہے؟ یہ تو چترال کے ساتھ زیادتی ہے۔

فیصل: چترال کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے محل وقوع سے نوازا ہے جو کہ اسے نمایاں بناتا ہے، چترال کر سرحدیں دو تین مقامات پر انتہائی آسانی سے افغانستان سے ملتی ہیں، اسی طرح تاجکستان بھی بہت نزدیک پڑتا ہے۔ سی پیک کے جو مقاصد ہیں چترال کو ان میں نمایاں مقام حاصل ہے اسلئے چترال کو اس اہم منصوبے سے الگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور پھر سی پیک ایسا منصوبہ ہے جس میں ہمارا دوست ملک شامل ہے،اس حوالے سے تمام معاملات باہمی مشاورت اور سی پیک کے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر طے کئے جاتے ہیں، تو ایسی صورتحال میں چترال کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا اور انشاء اللہ سی پیک الٹرنیٹ روٹ چترال سے ہی گزرے گا۔

چ،پ: چترال میں جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے، اس پابندی بھی لگتی ہے، پھر یہ سر اٹھاتا ہے؟

فیصل: بالکل یہ حقیقت ہے کہ چترال کے جنگلات کا صفایا کیا گیاہے، بے دریغ کٹائی ہوئی ہے، افغانستان تک چترال کی لکڑی پہنچائی گئی جوکہ اس علاقے پر ظلم ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بدعنوانی اور قومی دولت کے لوٹ مار کے خلاف کاروائی بھی تحریک انصاف کی حکومت میں ہوئی ہے۔ جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے، ہاں البتہ پہلے سے ڈھلائی شدہ لکڑیاں اور ملبے کو جنگل سے ہٹانے کے عمل کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ پہلے سے کٹائی شدہ لکڑ بھی قومی دولت ہے، اسے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے یہ اجازت دی گئی۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت نے جے ایف ایم سی کے نام سے ہونے والے کرپشن کے بازار کو بند کیا ہے اور رائلٹی کی تقسیم کا بھی معقول اور شفاف نظام وضع کیا جا رہاہے۔ جے ایف ایم سی نے جنگلاتی علاقوں کے لوگوں کو اندھیرے میں رکھا، عوام کو یرغمال بنا کر کروڑوں روپے ہتھیا ئے گئے۔جنگلات کے تحفظ اور جنگلاتی رقبے میں اضافے کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت نے تاریخ کا بڑا منصوبہ شروع کیا جسکی عالمی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی۔چترال میں لاکھوں درخت لگائے گئے ہیں، عوام کو جنگلات کے تحفظ اور شجرکاری میں شامل کیا گیا ہے اور یہ ایک کامیاب منصوبہ ہے۔

چ،پ: شہزادہ صاحب! ایک طرف کٹائی شدہ لکڑ ضلع سے باہر لیجانے کی اجازت ہے مگر چترال کے اپنے لوگوں کو گھروں کی تعمیر کے لئے لکڑی کے پرمٹ نہیں ملتے، چترال کی لکڑی یہیں پر اگر عوام کو فروخت کی جائے تو بہتر نہ ہوگا؟

فیصل: آپکی بات درست ہے، عمارتی لکڑی کے پرمٹ کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں مگر اس حوالے سے بھی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرمٹ حاصل کرکے اسے بھی بلیک میں فروخت کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، ہماری حکومت اس پر بھی قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ البتہ ہم نے محکمہ جنگلات کو یہ تجویز دی ہے کہ چترال میں ایک ٹمبر مارکیٹ قائم کرکے عمارتی لکڑی یہاں کے مقامی لوگوں کو فراہم کی جائے۔ انشاء اللہ اس پر کام کیا جائیگا، اس سے یہاں کے عوام کو بہت سہولت میسر آئے گی اور غیر قانونی کاروبار کا بھی خاتمہ ہوگا۔

چ،پ: چترال میں آپکی ضلعی کابینہ ہے، اپنی کابینہ کی کارکردگی کو کیسا سمجھتے ہیں؟

فیصل: جب ہماری تقرری کااعلامیہ جاری ہوا اسوقت سے ہم پارٹی کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں،چترال لوئر میں ہم نے تنظیم سازی کا عمل مکمل کر لیا، دونوں تحصیلوں کی کابینہ تشکیل دئیے جبکہ ہر ویلج کونسل کی سطح پر کابینہ سازی کا عمل مکمل کیا، اسوقت 1056افراد مختلف سطح کے باڈیز میں کابینہ کے اراکین کی حیثیت سے شامل ہیں، یہ ایک ریکارڈ ہے جسے مرکزی سطح پر سراہا گیا ہے، خیبرپختونخوا میں صرف کوہاٹ اور چترال لوئر نے یہ کارنامہ سرا نجام دیا ہے۔ بحیثیت تنظیم ہم پہلے سے بہت مضبوط اور متحرک ہیں، پہلے چند افراد ہوتے تھے جنکے گرد پارٹی گھومتی تھی مگر اب پوری تنظیم ہے۔ہماری کابینہ مضبوط ہے، اراکین متحرک ہیں۔ چھوٹے موٹے سیاسی اختلافات ہر جگہ پر ہوتے ہیں، مل بیٹھنے سے اختلافات دور ہوجاتے ہیں۔

چ،پ: اسوقت آپ جنرل سیکرٹری ہیں مگر پارٹی کے اندر متحرک مخالف گروپ موجود ہے، مختلف ونگز آپ کے ساتھ نہیں ہیں، اسکی کیا وجہ ہے؟

فیصل: مخالف گروپ پارٹی کے ہائی کمان کے فیصلے کو نہیں مان کر الگ بیانئے پر چل رہی ہے، ہمارا کسی سے اختلاف نہیں ہے، ہم کسی کی مخالفت نہیں کرتے، جو لوگ مخالف بنے ہیں اختلاف کے وجوہات کا بھی انہی کو علم ہوگا۔ دیکھیں، اختلاف اسوقت ہوتا ہے جب آپ کا کوئی ذاتی مفاد ہو اسلئے ممکن ہے کہ اس گروپ میں کچھ دوستوں کے ذاتی مفادات ہوں مگر ہمارے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں، ہم پارٹی تنظیم کے ساتھ ہیں، پارٹی قیادت کے حکم پر چلتے ہیں، ہم کسی سے مخالفت کے قائل نہیں، ہمارے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں، وہ بھی ہمارے اپنے بھائی ہیں، مل بیٹھنے سے ہی مسائل حل ہونگے، ضد اور انا پرستی سے مسئلے مزید الجھ جاتے ہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند کو تنظیمی معاملات سے الگ رکھنا ضروری ہے۔

چ،پ: معاؤن خصوصی وزیر زادہ بھی آپکو نظر انداز کر رہا ہے؟ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کابینہ مضبوط اور بااختیار ہے؟

فیصل: وزیر زادہ ہمارے بھائی ہیں، پارٹی کا حصہ ہیں، انہیں اقلیتی نشست پارٹی نے دی ہے، وزیر زادہ پر پارٹی نے احسان کیا ہے، کالاش کمیونٹی کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نمائندگی ملی، ڈیڈک کے چیئرمین شپ بھی وزیر زادہ کو ملی۔ہم مجموعی طور پر اسکی نمائندگی سے بڑا مطمئن ہیں۔تھوڑا بہت انڈرسٹینڈنگ میں مسئلہ ہے جس کا پارٹی کے بڑوں کے سامنے ہم نے برملا اظہار بھی کیا ہے، اب کچھ باتیں ایسی ہیں کہ وہ میں اوپن کرنا نہیں چاہتا۔ پارٹی کے اندر تنظیم مضبوط ہے، فرد پر فوکس نہیں، خان صاحب کا وژن بھی یہی ہے کہ پارٹی تنظیم مضبوط ہو، ون مین شو ہماری پارٹی میں نہیں چلتاا،ب ظاہری بات ہے جو پارٹی تنظیم اور کارکنوں کے ساتھ قریبی تعلق رکھے گا پارٹی میں بھی اسکی اہمیت ہوگی۔

چ،پ: شہزادہ صاحب آپ نے ڈیڈک کے چیئرمین شپ کی بات کی، تو کیا یہ ایک منتخب نمائندے کے ساتھ زیادتی نہیں کہ انہیں ڈیڈک کا چیئرمین نہیں بنایا گیا؟

حالانکہ ایک بندے کو دو عہدے ملے ہیں صوبائی کابینہ بھی اور ڈیڈک چیئرمین بھی؟ایسی کوئی مثال کسی دوسرے ضلع میں نہیں۔
فیصل: دیکھیں جناب، سیاسی معاملات ہیں، ہماری حکومت یہی چاہے گی کہ اپنے ایجنڈے کو چلانے کے لئے اپنے بندوں پر انحصار کیا جائے، مرکز اور صوبے میں ہماری حکومت ہے تو ظاہری بات ہے کہ ضلع میں بھی نمائندگی ہمارے اپنے پاس ہونے سے کام کرنے میں آسانی ہوگی۔ ہم ہر گز یہ نہیں کہیں سکتے کہ مولانا ہدایت الرحمن صاحب میں قابلیت یا صلاحیت کی کمی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ الگ پارٹی کے ہیں، انکا ایجنڈا الگ ہے، اسلئے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے تحریک انصاف اپنے ممبر کو ترجیح دی ہے اور اس کا فائدہ علاقے کو ہورہا ہے کیونکہ صوبے میں ہماری حکومت ہے اسلئے ڈیڈک چیئرمین آسانی سے کام کر رہاہے۔ اگر آپکی نظر میں کارکردگی میں کوئی کمی ہے تو بتادیں باقی وزیر زادہ میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں، وہ اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

چ،پ: وزیر اعلیٰ کے حالیہ دورے کے موقع پر آپ کے کابینہ کے کچھ ذمہ داروں کو پولیس نے حراست میں لیا، یہ توآپکے لئے سبکی اور کابینہ کی کمزوری کا اشارہ ہے؟

فیصل: جی کسی حد تک میں اس سے اتفاق کروں گا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں سے دوسرے لوگوں کو یہ خوف تھا کہ وہ کہیں چیف منسٹر صاحب کے سامنے کوئی ایسی بات کریں گے جس سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا۔ کیونکہ میرے کچھ ساتھیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ چترال میں کرپشن ہوئی ہے اور اسکے ثبوت انکے پاس ہیں، اور وہ وزیر اعلیٰ صاحب کو یہ ثبوت پیش کرینگے تو اس پر کچھ لوگ خوف کا شکار ہوگئے۔اس وجہ سے ساتھیوں کو راستے میں روکا گیا مگر انکی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔

چ،پ: چلیں مانتے ہیں کہ وہ عناصر ناکام ہوگئے، مگر کیا ایسا نہیں کہ کابینہ سے بالا کوئی گروپ یا افراد موجود ہیں جنکا اثر و رسوخ کابینہ سے بڑھ کر ہے،جو ایسے فیصلے اور اقدامات اٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ پھر آپکو تگ و دو کرکے دوبارہ راستہ سیدھا کرنا پڑتا ہے؟

فیصل: کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں مگر یہ ان کی نادانی ہے، جس طرح میں نے آپکو بتایا انکے دل میں کچھ خوف تھا کہ وزیر اعلیٰ کے سامنے بد مزگی ہوگی،مگر یہ ساتھی بھول جاتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ہماری پارٹی کا ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ انکا پروگرام اچھا ہو، خوشگوار ماحول ہو، ہم کوئی ایسی بات وزیر اعلیٰ صاحب سے کرنا چاہیں تو بند کمرے میں کرینگے۔ مگر یہ ان دوستوں کی غلط فہمی تھی۔ میں ہروقت ان سے یہی کہتا ہوں کہ آپ ہمارے بھائی ہیں، ہم اگر مل کر چلیں گے تو پارٹی کو فائدہ ہوگااور آپ جب تک کابینہ کو تسلیم نہیں کرینگے تو معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے، ابھی تو میرے خیال سے وزیرا علیٰ صاحب نے بھی یہ احکامات دئیے ہیں کہ جو بھی کام ہونگے کابینہ کو آن بورڈ لیکر کئے جائینگے، جو بھی کام بھی ہونگے چاہے وہ ڈیڈک کا چیئرمین کرتا ہے یا اقلیت کا منسٹر کرتا ہے، سارے کام کابینہ کو آن بورڈ لیکر کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں، کابینہ کے بغیر کوئی بھی کام چترال میں نہیں ہوگا۔

چ،پ: دورہ چترال کے موقع پر وزیراعلیٰ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے ملاقات کی،جس میں ضلعی کابینہ کے اراکین، تحصیل کابینہ کے اراکین وغیرہ شامل تھے، سننے میں آیا ہے کہ ملاقات کے دوران وفد نے وزیرزادہ کے خلاف ایک تفصیلی چارج شیٹ پیش کی ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے؟

فیصل: دیکھیں جی وزیر اعلیٰ صاحب کے ساتھ بڑے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی، ہماری خواہش پر الگ کمرے میں ملاقات ہوئی جس میں ہم نے کھل کر باتیں کی ہیں، وہ ہمارے گھرکے اندر کی باتیں ہیں، انہیں میڈیا میں لانے کی ضرورت نہیں، آپ اسے چارج شیٹ کہتے ہیں یا جو بھی کہیں مگر درحقیقت ہم نے پارٹی امور اور حکومتی معاملات کی بابت بڑے کھلے انداز میں بات کی ہے، میں وزیر اعلیٰ صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بڑے اطمینان اور محبت سے ہماری گزارشات سن لیے، ہم ملاقات سے مطمئن ہیں۔

چ،پ: بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی ملاقات میں آپ نے چترال کے دو ذمہ دار انتظامی افسرا ن کی تبدیلی کا مطالبہ بھی کردیا؟

فیصل: یہ بالکل غلط بات ہے، ہم نے کسی کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا، تحریک انصاف کا یہ منشور ہے ہی نہیں کہ ہم افراد کو فوکس کریں، ہم وزیر اعلیٰ صاحب کا شکریہ ادا کیا ہے کہ چترال میں اسوقت فعال افسران تعینات ہیں بالخصوص ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او جنکی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں۔ ہاں البتہ انتظامیہ کے حوالے سے صرف اتنی بات ہوئی کہ ہم نے وزیراعلیٰ صاحب سے گزار ش کی کہ انتظامیہ کو ہدایت کریں کہ جو ہمارے ترقیاتی کام ہورہے ہیں، فنڈز استعمال ہورہے یا قومی سطح کے مہمانوں کے لئے پروگروام مرتب ہورہے ہوں تو ان امور میں وہ ضلعی کابینہ کیساتھ مشاور ت کریں اور اعتماد میں لیں۔ ہم تبادلے والی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔

چ،پ: سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ آپکے ساتھیوں کی گرفتاری کی بابت وزیر اعلیٰ کے سامنے ڈی پی او نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی کو گرفتار کرنے کے احکامات نہیں دئیے؟

فیصل: دیکھیں جی، صاف سی بات ہے ڈی پی او کا زار بہار کے ساتھ کیا مخالفت ہوگی، یا ہمارے دیگر ساتھیوں، جنہیں بکر آباد میں روکا گیا، انکے ساتھ ڈی پی او کا کیا مسئلہ ہوگا؟یہ سارا سیاسی مسئلہ تھا اسمیں ہم نے پولیس اور انتظامیہ کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے آستین میں دیکھا، ہمارے اپنے آستین میں سانپ تھے، ہمیں انہیں بے نقاب کرنا تھا جو ہم نے وزیر اعلیٰ صاحب کے سامنے کردیا۔

چ،پ: شہزادہ صاحب!وزیر اعلیٰ کے معاؤن خصوصی وزیر زادہ صاحب جو ایم پی اے، ڈیڈک چیئرمین بھی ہیں، ایک بااختیار حکومتی نمائندے ہیں، وزیر اعلیٰ کے دورے کے فوراً بعد وزیر زادہ صاحب کے خلاف کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے، کیونکہ سوشل میڈیا میں بڑا شور ہے۔ آپکی پارٹی تو کرپشن کے خلاف ہے، اس سارے معاملے کی وجہ سے آپکی پارٹی تو ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے؟

فیصل: جی بالکل اس قسم کے الزامات میں نے بھی سوشل میڈیا کے توسط سے سنے ہیں،مگر میں انکی تصدیق تو نہیں کرسکتا کہ یہ درست ہیں۔ جو بات سننے میں آئی ہیں ان میں کوئی کہتا ہے کہ کلاس فور کی نوکریاں بک گئی ہیں، کوئی منصوبوں کے بارے میں بات کرتا ہے، کوئی ٹینڈر میں کک بیکس کی بات کرتے ہیں،بذات خود میرا وزیر زادہ کے ساتھ نہ کبھی کسی کلاس فور کی نوکری کے لئے کوائی رابطہ ہوا ہے نہ ہی کسی منصوبے کے لئے بات ہوئی، البتہ یہ باتیں دیگر لوگوں کی طرح میں نے بھی سن لی ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اس حوالے سے وزیر زادہ صاحب خود فرنٹ پر آئیں، وہ ہمارے تحریک انصاف کے نمائندے ہیں، وہ خود آگے آکر ایک مثال قائم کریں اور ان چیزوں کو کلیئر کریں تو اچھا ہوگا۔ کیونکہ ان پر الزام لگا ہے۔ اگر مجھ پر کوئی الزام لگے تو میرا فرض بنے گا کہ میں سامنے آؤں، خود کو احتساب کیلئے پیش کروں، اگر کسی نے غلط الزام لگائے ہیں تو وہ معافی مانگے گا۔

چ،پ: ٹھیک ہے، وزیر زادہ صاحب نے خود سامنے آکے کلیئر کرنا ہے مگر جمہوریت ہے، سیاسی معاملات میں پارٹی کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے، اس سارے معاملے حکمران پارٹی کیا کردار ادا کرے گی، پارٹی کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہیں؟

فیصل: ہماری پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے، یہاں جنونی ورکر ہیں، انہیں عمران خان صاحب نے ایک وژن دیا ہے، ایک راستہ دکھایا ہے، اب وزیر زادہ صاحب کے خلاف بھی جو آواز اٹھی ہے وہ پارٹی کے اندر سے ہی کارکنوں نے اٹھایا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری پارٹی سیاسی طور پر میچور ہے۔ اب یہ وزیر زادہ صاحب کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے آئیں، ان چیزوں کو کلیئر کریں، ہم انکے ساتھ ہیں اور ہم اس کارکن کے بھی ساتھ ہیں جنہوں نے یہ آواز اٹھایا ہے کیونکہ اس نے بھی پارٹی کے مفاد میں بات کی ہے ورنہ اسکا وزیر زادہ کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف تو نہیں۔ اسلئے میں کہہ رہا ہوں کہ وزیر زادہ صاحب ان الزامات کے حوالے سے خود کو احتساب کے لئے پیش کریں تو اس میں انکا بھی فائدہ اور پارٹی کا بھی۔ کیونکہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ اگر کسی پر بے بنیاد الزامات لگتے ہیں تو وہ برملا میدان میں آکر خود کو پیش کرتا ہے اور اگر کوئی ملوث ہو تو پھر فرار کی راہ اپناتا ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ وزیر زادہ صاحب مثبت قدم اٹھائیں گے۔

چ،پ: شہزادہ صاحب! سوال پھر تشنہ رہ گیا، آپکی بات ٹھیک ہے کہ وزیر زادہ صاحب نے جو کرنا ہے وہ کرینگے، خود کو کلیئر کرینگے، میرا سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں پارٹی کیا کررہی ہے، آپکی پارٹی کہاں کھڑی ہے؟

فیصل: یہ نئی بات ہے، کچھ دنوں سے یہ چیزیں چلی ہیں، ہم نے بھی سنا ہے، آپ نے بھی سنا، یہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گے، اونٹ نے ایک طرف بیٹھنا ہے،خدانخواستہ وزیر زادہ صاحب غلط نکلے تو پارٹی کابینہ اور اسمیں سب سے پہلے میں انکے خلاف کھڑا ہونگا اور اگر وزیر زادہ صاحب پر لگنے والے الزامات غلط نکلے تو اس صورت میں بھی سب سے پہلے کابینہ اور بذات خود میں اس شخص کے خلاف کھڑا ہونگا جس نے یہ الزامات لگائے ہیں اور اسکے خلاف ایکشن لیں گے۔

چ،پ: جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ کسی عام کارکن نے تو نہیں لگائے ہیں، وہ اپنے پارٹی کے ایک تحصیل کے سیکرٹری اطلاعات اور پارٹی ترجمان نے لگائے ہیں، عمومی طور پر پارٹی ترجمان جو بات کرتا ہے وہ پارٹی کی ہی بات سمجھی جاتی ہے، اس صورت میں کیا آپکی پارٹی ان باتوں کو اون کرتی ہے کہ نہیں؟

فیصل: پارٹی ان باتوں کو بالکل اون اسلئے نہیں کرتی ہے کیونکہ یہ باتیں پارٹی کا کوئی مشترکہ فیصلہ نہیں، میں پارٹی کا جنرل سیکرٹری ہوں اور میں آپکو یہ کہہ رہا ہوں کہ حقیقتاً مجھے علم نہیں تھا کہ اظہار دستگیر جو دروش کابینہ کے ترجمان ہیں، انہوں نے ایسے الزامات لگائے ہیں، اس سے پہلے آپ اظہار دستگیر کے سوشل میڈیا پوسٹس نکال کر دیکھیں تو وہ ہمیشہ وزیر زادہ کی تعریفیں کر تے رہے ہیں، انکے کام کی تعریف کرتے رہے ہیں، حالانکہ ہمارے سیاسی اختلافات تو کب سے تھے اور اظہار دستگیر ہمارے تحصیل کابینہ کا پہلے سے ہی حصہ ہیں، ایک دم سے آکر یہ چیزیں میدان میں آئیں۔ مجھے تو اس چیز کا بھی اندازہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہونگے کہ شائد میں، یا ضلعی صدر سجاد احمد صاحب یا ہمارے تحصیل صدر ارشاد مکرر صاحب یا کوئی دوسراکابینہ رکن اظہار دستگیر کے ذریعے یہ کروا رہا ہے، اور یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں، اظہار دستگیر بچپن سے اس پارٹی کا کارکن رہاہے، اور ایک نظریاتی کارکن میدان میں آکر سوشل میڈیا میں جو الزام لگارہا ہے تو اسکی ذمہ داری تو اظہار دستگیر پر ہی ہوگی، ثبوت وہی لائے گا، الزامات ثابت وہی کریگا۔البتہ ہماری طرف سے یہ ہوگا کہ ہم بڑ ا نیوٹرل رہیں گے کیونکہ وزیر زادہ بھی ہمارے پارٹی کا ہے اور اظہار دستگیر ہمارے پارٹی اور ہمارے کابینہ کا حصہ ہے۔ہم نیوٹرل رہینگے، جوبھی حق پر ہوگا ہم اسکے ساتھ ہونگے اور جو غلط ہوگا ہم اس کے خلاف ہونگے۔یہی تحریک انصاف کا موٹو ہے۔

چ،پ: شہزادہ صاحب آپ پارٹی میں ایک اہم اور ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں، یہ مچھلیوں کے تالاب کے قصے کا آپکو علم نہیں تھا؟ اس بابت ہمیں بھی کچھ بتائیں نا؟

فیصل: میں خود حیران ہوں یار، میں تو چاہتا ہوں کہ ایسے تالاب کے مچھلی کو تو داد دینی چاہییے، مگر مجھے لگتا ہے کہ اس بابت کچھ مس انڈراسٹینڈنگ ہے ورنہ جس جگہے یعنی نشکو کا نام لیا گیا ہے وہاں پینے کا پانی نایاب ہے، وہاں مچھلی کا تالاب کیسے بنے گا، میں اسے مس انڈر اسٹینڈنگ سمجھتا ہوں،اس میں بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا یہ ادھر ہوا بھی ہے کہ نہیں۔

چ،پ: ابھی کچھ ہفتوں میں بلدیاتی انتخابات ہونگے، اس کیلئے آپ کے پارٹی کی تیاری کیسے جارہی ہے؟

فیصل: بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار ہو رہے ہیں، الحمد اللہ ہماری تیاری مکمل ہے،ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ویلج کونسل سطح تک ہماری کابینہ تیار ہیں،ابھی ہم دورے شروع کر رہے ہیں جس میں ہم پارٹی کے ورکرز کے ساتھ میٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کے مشران کے ساتھ بھی مشاورت کرینگے کیونکہ ویلج کونسل لیول پر محدود سیاست ہوتی ہے، ہمارے چترال کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں پر ہر ایک بندہ دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے، تو ہماری کوشش ہوگی کہ مشاورت سے بالاتفاق امیدوار میدان میں اتاریں گے اور ہم اس کنڈیڈیٹ کو مکمل سپورٹ کرینگے۔ اسوقت ہمارے لئے کوئی مسئلہ اسلئے نہیں کہ ہر ویلج کونسل میں ہماری کابینہ موجود اور فعال ہے۔

چ،پ: آپ کی بات ٹھیک ہے، آپ امیدوار میدان میں اتاریں گے، یہ تو بتائیں کہ امیدواروں کو ٹکٹ دے گا کون؟ضلعی کابینہ یا کوئی اور؟

فیصل: ٹکٹ ضلعی کابینہ دے گی انشاء اللہ،پارٹی کے آئین کے مطابق یہ کابینہ کی ذمہ داری ہے۔

چ،پ: آئینی طور پر تو بہت چیزین کابینہ کی ذمہ داری ہیں، کابینہ کے اختیار میں ہیں مگر جس طر ح ابھی بات کر رہے تھے، کئی چیزوں کے اوپر پارٹی آئین سے بھی ہٹ کر کام ہورہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ کابینہ موجود ہے مگر پیراشوٹ کا بھی استعمال ہو؟

فیصل: نہیں جی، مجھے اندازہ ہے آپ جن باتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، مگر آپ نے دیکھ بھی لیا کہ جو پارٹی آئین سے ہٹ کے کام کرتے ہیں پھر انہیں منہ کی کھانی بھی پڑتی ہے، اور وہ طریقے بھی ہمیں آتے ہیں، آج ہماری کابینہ اتنی مضبوط ہے کہ ہر ویلج کونسل میں ہمارے نمائندے ہیں، ویلج میں کابینہ موجود ہے، اب ایسی صورتحال میں کون آکر انہیں بائی پاس کریگا۔ اس حوالے سے میں پر امید ہوں۔ یہ صرف چترال کا نہیں بلکہ اور بھی اضلاع ہیں، خدانخواستہ ایک جگہ یہ بیانیہ سیٹ ہوا کہ بلدیاتی ٹکٹس کابینہ نہیں کوئی اور پیراشوٹر دیگا تو پھر اور جگہوں میں بھی یہی کچھ ہوگا، مگر یہ چل نہیں سکے گا اور آپس میں مسئلے بنیں گے۔

چ،پ: انتخابات میں کامیابی کے لئے متحد ہو کر لڑنا پڑتا ہے، مگر آپ کے پارٹی کے اندر الگ الگ گروپس ہیں، تو ایسی صورتحال میں کامیابی کے حوالے سے آپ کیسے مطمئن ہیں؟

فیصل: پارٹی میں گروپ کون بناتا ہے، وہی جن کے اپنے ذاتی مقاصد ہوں، ذاتی ایجنڈا ہوتو چند لوگوں کو بہکا کر اپنے ساتھ ملا لیتا ہے، کسی کو دھوکہ دیتا ہے، کسی کو لالچ دیتا ہے، اس طرح ایک گروپ بن جا تاہے، ہم تو مین اسٹریم پارٹی ہیں، مین اسٹریم سیاست کرتے ہیں،میں پر امید ہوں کہ جن با اختیار افراد کے ارد گرد یہ گروپ بیٹھے ہیں، ان با اختیار حضرات کو بھی یہ اندازہ ہوگا کہ میری ذمہ داری گروپوں کو پروآن چڑھانا نہیں بلکہ میری ذمہ داری اپنے کابینہ کو لیکر آگے چلنا ہے۔اور میرے خیال سے اب احکامات بھی ایسے آنا شروع ہو جائینگے، کیونکہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت ہے، اس میں کابینہ کو بائی پاس کرکے کام کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ مگر میں آپ کے اس بات سے اتفاق کر تا ہوں کہ گروپس ہیں مگر ہمارے ریجنل اور بالائی سطح کے مشران کو اس چیز کا اندازہ ہے کہ ان معاملات کو کس طرح ہینڈل کیا جائے۔

چ،پ: مخالف گروپوں کے ساتھ افہام و تفہیم آپکے ایجنڈے میں شامل ہے؟

فیصل: دیکھیں بھائی ہمارے اختلافات کس چیز پر ہیں؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ ایک علاقے میں کام کر رہے ہیں وہاں کابینہ موجود ہے،آپ کابینہ کو لیکر کام کریں، وہ آپکو اچھا مشورہ دینگے اور اپنے علاقے کے حقیقی مسائل سے آپکو آگاہ کریں۔ میری تو یہی ڈیمانڈ ہے، میں نے نہ نوکری کی کوئی ڈیمانڈ کی ہے، نہ ٹھیکے کی کوئی بات کی ہے، میں ورکرز اور کابینہ کی عزت کی بات کرتا ہوں۔تو انہوں نے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی فورم میں اسکا جواب دینا ہوتا ہے۔میں ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگ اگر میرے خلاف بات کریں گے تو کیا کرینگے؟فیصل نے یا سجاد احمد نے مجھ سے ایسا کیا ڈیمانڈ کیا تھاکہ اس سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچ رہا تھااور میں نے وہ ڈیمانڈ پوری نہیں کی، وہ لاجواب ہی رہینگے اور ایسے دوتین مرتبہ ہوا بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ انہیں اس چیز کا اندازہ ہو جائیگا اور وہ لوٹ آئینگے۔ صبح کے بھولے شام کو گھر لوٹ آئیں گے۔

چ،پ: شہزادہ صاحب اگر ان حالات کو دیکھتے ہوئے وزیر زادہ کو سائیڈ کیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟

فیصل: یہ تو پھر چترال کی بدقسمتی ہوگی اور اسکی ذمہ داری پارٹی کے اندر گروپ بندی کرنے والے لوگوں پر عائد ہوگی۔ مگر میں واضح طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم کسی بھی ایسے اقدام کے سخت خلاف ہونگے۔ وزیر زادہ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ جو لوگ ہیں جنہیں مخالف گروپ کہتے ہیں، یہ سب انکا کیا دھرا ہوگا، آخر کار یہ لوگ وزیر زادہ کو بھی چھوڑ دینگے، جس طرح فوزیہ بی بی کے ساتھ ہوا۔ یہ وہی لوگ ہیں، انکے اپنے مفادات ہیں۔