پشاور ہائی کورٹ نے چترال میں بندوبست اراضی کا نوٹس لے لیا، مقدمہ پرنسپل سیٹ میں لانے کا حکم

اشتہارات

پشاور(م،ڈ) پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے چترال میں زمینوں کے انتقالات سرکار کے نام کرنے اور اسے سرکاری ملکیت قرار دینے کا نوٹس لیتے ہوئے اس حوالے سے دائر درخواست پر متعلقہ کیس دارالقضاء سوات سے پشاور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کو منتقل کرنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں۔ سنگل رکنی بنچ نے بیرسٹر اسد الملک کی وساطت سے دائر مقامی رہائشیوں کے درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر سابق ایم این اے شہزادہ افتخارا لدین اور سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بندوبست اراضی کرکے اپر اور لوئر چترال کی 97فیصد اراضی کو سرکاری ملکیت قرار دیا گیا ہے جوکہ نہ صرف آئین کے آرٹیکل 172کی خلاف ورزی ہے بلکہ متعلقہ اضلاع کا حق مارنے کے مترادف ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ چترال میں جس طرح زمینوں کی سیٹلمنٹ کی گئی ہے اس سے علاقے میں تنازعہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے، حال ہی میں بونی اپر چترال میں ایسے ہی ایک تنازعے کے بعد چترال سکاؤٹس کو مداخلت کرنی پڑی۔ دوران سماعت بیرسٹر اسدا لملک نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک اہم نوعیت کا معاملہ ہے اور بلوچستان ہائی کورٹ نے پہلے ہی اس نوعیت کے ایک کیس کا نوٹس لیتے ہوئے حکومتی نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے چکی ہے،لہذا یہ بہتر ہوگا کہ متعلقہ کیس کو دارالقضاء سوات کی بجائے پشاور ہائی کورٹ کے پرنسپل سیٹ پر سنا جائے۔ بعد ازاں فاضل چیف جسٹس نے استدعا منظور کرتے ہوئے چترال میں زمینوں کے انتقالات کا کیس دارالقضاء سوات سے پشاور ہائی کورٹ منتقل کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔