کورونا وائرس کا پھیلاؤ، چترال کے ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان اور عوامی مسائل/تحریر: گل حماد فاروقی

اشتہارات

ایک ایسے وقت میں جب ملک ایک بار پھر کورونا ء وباء کی لپیٹ میں آگیا ہے چترال لوئر اور چترال اپر کے دونوں اضلاع میں صحت کی سہولیات ناگفتہ ہیں اور اس پسماندہ علاقے کے دونوں اضلاع کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔صحت کے ایمرجنسی کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کیونکہ چترال کوئر اور چترال اپر کے ڈی ایچ ہسپتال، ٹی ایچ کیو ہسپتالوں اور دیگر مراکز صحت میں نہ صر ف ڈاکٹروں کی کمی ہے بلکہ طبی سہولیات کا بھی فقدان ہے جسکی وجہ سے یہاں کے لوگ مسلسل پریشانی اور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ کورونا وباء پھیل چکی ہے مگر اس سے نمٹنے کے لئے اقدامات بھی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کمزور ہیں۔ چترال میں صحت کے مسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی،مریضو ں اور انکے متعلقین کو درپیش مشکلات کا جائزہ لینے کی غرض سے ہم نے محکمہ صحت کے ذمہ داران، سول سوسائٹی کے نمائندگان اور کورونا سے متاثر ہونے والے مریض کے متعلقین سے گفتگو کی تاکہ حقائق اور مشکلات کو سامنے لایا جا سکے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کورونا وائریس سے متاثر ہوکر جان بحق ہونے والے معروف سماجی کارکن بشیر احمد کے فرزند سعود احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب میرے والد صاحب بیمار ہوئے تو اسے ہم چترال ہسپتال لے گئے، ان کا ٹیسٹ کرایا گیا اور جب رزلٹ آیا تو پتہ چلا کہ میرے والد کو کوونا ہوا ہے۔ یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں تھا، میرے والد صاحب جو سماجی کارکن تھے اور عمر بھر دوسروں کا خدمت کرتے رہے مگر جب اس پر برا وقت آگیا تو اس کی خدمت نہ ہوسکی۔ اسے چترال ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر چترال ہسپتال میں ونٹی لیٹر خراب تھا،انہیں مجبوراً خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور لے جا یا گیا۔ وہاں میرے ایک رشتہ ڈاکٹر بھی موجود تھے مگر اس کے باوجود ہم پر جو بیتی وہ خدا کسی کو بھی نہ دکھائے۔ ہسپتال میں مریض کے علاج معالجے کے علاوہ اس کے ساتھ اٹنڈنٹ کے رہنے، کھانے پینے، صفائی ستھرائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔خااص کر جو مریض ایمرجنسی میں جاتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے اور پشاور میں اگر انکی جان پہچان بھی نہ ہو ان کیلئے اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ میرا والد تین دن آی سولیشن میں پڑا تھا اس کے ونٹی لیٹر لیٹر پر مسلسل آکسیجن دیتا رہا جب آکسیجن ہٹاتے تو اس کا سانس بند ہوجاتا۔ آخری لمحات نہایت تکلیف دہ تھے، ہمیں والد سے ملنے سے بھی روک دیا گیا اور بعد میں یہ بری خبر سنائی گئی کہ ان کا انتقال ہوا۔ ایک عام میت اور کورونا وائریس سے مرنے والے میت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے پاس اکثر ان کے لواحقین کو بھی نہیں چھوڑتے اور لوگ بھی اس کے جنازے میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ہم والد کی میت کو لیکر چترال روانہ ہوئے مگر ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب کوئی مریض پشاور ریفر کیا جاتا ہے تو پشاور کے ہسپتالوں میں ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریض کی علاج کی ادویات خریدنے،ان کے علاج کے علاوہ ان کے ساتھ جو اٹنڈنٹ ہوتے ہیں ان کو بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر چترال کے ہسپتال میں تمام سہولیات فراہم کئے جائیں تو مریضوں کوپشاور ریفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگرچہ چترال کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال 2010 میں کیٹیگی بی میں اپ گریڈ ہوا تھا مگر اس وقت سے لیکر ابھی تک اس میں ایک اضافی کمرہ تک نہیں بنایا گیا۔
ڈاکٹر نثار احمد جو ڈپٹی ڈی ایچ او ہے ان کو بھی کرونا ہوگیا تھا جو پشاور کے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہے ان سے جب فون پر بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دس دن تو وہ ونٹی لیٹر پر موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا تھے اور کافی اذیت سے گزرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے چترال کے واحد ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں چار ونٹی لیٹرز ہیں مگر وہ کام نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ سیریس مریضو ں کو پشاور ریفر کرنا پڑتا ہے۔ کورونا وائریس کے دوسرے لہر نے ایک بار پھر لوگوں کو پریشان کرنا شروع کیا ہے اس سلسلے میں چند ایسے مریضوں یا کوروونا سے مرنے والے افراد کے لواحقین سے مل کر ان کی پریشانی جاننے کی کو شش کی گئی تاکہ ان مسائل کا کوئی ممکنہ حل نکالا جاسکے۔
کورونا وائریس کے دوسرے لہر نے جہاں دنیا بھر کو پریشان کیا ہے وہیں پاکستان میں بھی اس وباء کے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چترال اور اس جیسے دیگر دور افتادہ اور پسماندہ اضلاع میں اس وباء نے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ چترال دو اضلاع میں تقسیم ہوا ہے ضلع اپر چترال اور لوئیر چترال مگر دونوں اضلاع میں ڈاکٹروں کی شدیدکمی ہے۔ اسی طرح چترال کے کسی بھی ہسپتال میں کورونا ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے۔ یہاں کورونا ٹیسٹ کیلئے مشکوک مریض سے نمونے لیکر گاڑی کے ذریعے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور بھیجے جاتے ہیں،جس میں دو دن لگتے ہیں اور اگر راستے میں گاڑی خراب ہو یا راستہ بند ہو تو زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ لوئیر چترال میں کورونا کے کو آرڈنیٹر ڈاکٹر تاثیر جمال کے مطابق یہاں مقامی طور پر ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے یہ وباء پھیلنے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ ہم اپنے طور پر مشکوک مریض کو تو سمجھاتے ہیں کہ وہ تنہائی اختیار کرے مگر ٹیسٹ کے بغیر اکثر ایسے مریض لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان سے دوسرے لوگوں کو بھی کورونا لگ سکتا ہے۔ڈاکٹر تاثیر کے مطابق ان کے پاس گاڑی کیلئے تیل اور دیگر سہولیات کی بھی کمی ہے۔ ان کے مطابق چترال میں روزانہ دو سو سے لیکر دو سو تیس تک ٹیسٹ کیلئے نمونے اکھٹے کئے جاتے ہیں اور ان نمونوں کو ٹیسٹ کیلئے پشاور بھیجا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تاثیر کے مطابق پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ کی کمی تو نہیں ہے البتہ یونیورسل ٹرانسپورٹ میڈیا میں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوئیر چترال میں صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں چار عدد وینٹی لیٹرز ہیں جو کام نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اپنا ایک ڈاکٹر جو ڈی ایچ او کے دفتر میں تعینات تھے، ڈاکٹر نثار کو کورونا ہوا تھا جسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا اب ان کی حالت بہتر ہے مگر یہاں ہمارے پاس ونٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مریضوں کو مجبوراً پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ڈائیگنوس لیبارٹی نہ ہونے سے اس کی ٹیسٹ پر بہت وقت لگتا ہے اور جب تک مریض کا رزلٹ آتا ہے تب تک وہ اپناکام کرچکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چترال میں مقامی طور پر لیبارٹری کا بندوبست کیا جائے تو یہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ ہم جن مریضوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں تو وہ آئسولیشن میں نہیں جاتا ہے ان کا اکثر یہی کہنا ہوتا ہے کہ میرا ٹیسٹ ابھی تک نہیں آیا ہے اور اس طرح اس سے دیگر لوگوں کو بھی یہ وائریس پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹریس، ٹیسٹ اور قرنطینہ ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوئر چترال میں 65 ایکٹیو کیس ہیں، لوئیر چترال میں کل پازیٹیو کیس 859 ہیں اور ہم نے 10800 مشکوک لوگوں کا ٹیسٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک آٹھ افراد کرونا کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لوئیر چترال ڈاکٹر شہزادہ حیدر الملک کے مطابق لوئیر چترال میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال، ایک تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (گرم چشمہ) دو کیٹیگری ڈی ہسپتال بونی اور دروش میں، 6 دیہی مراکز صحت RHC، اسی طرح 19 بنیادی مراکز صحت BHU اور 32 سول ڈسپنسریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحصیل ہیڈ کوارٹز ہسپتال گرم چشمہ آغاخان ہیلتھ سروس کے پاس ہے مگر وہاں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اسی طرح آر ایچ سی آیون میں ایک خاتون ڈاکٹر کی آسامی خالی پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ایچ یو بمبوریت میں ڈاکٹر کی آسامی خالی ہے جس سے وہاں کے لوگوں کے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح کیٹیگری ڈی ہسپتال دروش میں لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کے نیشنل پروگرام کوآرڈنیٹر ڈاکٹر سلیم سیف اللہ کے مطابق چترال میں LHW کی 105 آسامیاں خالی ہیں جن کیلئے ہم نے ڈائریکٹر جنرل صحت سے درخواستیں منگوانے کیلئے لکھا ہے اور جب یہ خالی آسامیاں پر جائے تو اس سے بھی صحت کے حوالے سے کافی فرق پڑے گا۔اس سلسلے میں جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ DHQ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دونوں اضلاع کا یہ واحد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہیں جو 200 بیڈ پر مشتمل ہے۔ یہاں ڈاکٹروں کی کل منظور شدہ آسامیاں 106 ہیں جن میں پچھلے دس سالوں سے 57 آسامیاں خالی پڑی ہیں جن میں 21 سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی خالی آسامیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مریضوں کو مجبورا پشاور ریفر کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں کارڈیا لو جسٹ، نیورو سرجن، آرتھوپیڈک سرجن، نیفرالوجسٹ، نیورالوجسٹ وغیرہ کی سہولیات موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر مریضوں کو پشاور وغیرہ ریفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے صحت کے شعبے میں خدمات فراہمی میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ ڈاکٹر شمیم کے مطابق دونوں اضلاع سے گائنی کے بہت زیادہ مریض یہاں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے گائنی یونٹ پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائریس کے دوسرے لہر کی آمد پر اس ہسپتال کا HDU/ICU مکمل طور پر فعال نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ، مرکزی آکسیجن پلانٹ، ونٹی لیٹرز اور پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ کی بھی شدید کمی ہے۔ ڈاکٹر شمیم کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال سے زیادہ تر کارڈیالوجی، نیفرالوجی، آرتھوپیدک، سائکاٹرک، نیور و سرجن، سکن، کینسر، کمپلیکیٹڈ گائنی کیس بھی پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اس ہسپتال سے ہر ماہ 70 مریضوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گائنی یہاں ہونے کے باوجود بعض اوقات وہ کیس Complicated بن جاتے ہیں تو ان کو بھی پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے چترال کے معروف سکالر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا کہنا تھا کہ ان کا آبائی گھر ضلع اپر چترال کے بالیم گاؤں میں ہے جہاں ابھی تک ہسپتال کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال نو آباد ضلع ہے، وہاں ابھی تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال تک موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض اپر چترال سے بھی لوئرچترال کے DHQ ہسپتال کارخ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فیضی سے جب چترال میں صحت کے حوالے سے جامع سہولیات اور انتظامات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں غیر ملکی فنڈ سے ایک برن سنٹر تعمیر ہوا ہے جس میں آگ سے جلے ہوئے مریضوں اور زخمیوں کا علاج ہونا تھا مگر ابھی تک یہ برن سنٹر فعال نہیں ہے، اس میں عملہ تک نہیں ہے جبکہ چترال میں اکثر گیس سیلنڈرز پھٹنے سے حادثات پیش آتے ہیں جس میں لوگ جل جاتے ہیں ایسے مریضوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے جن میں اکثر واقعات میں متاثرہ بندہ فوت ہوجاتا ہے۔
معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر کے مطابق چترال میں صحت کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہگذشتہ روز آیون سے تعلق رکھنے والے ایک پھول جیسے بچے کو سانس کی تکلیف پیدا ہوئی،اسے جب دیہی مرکز صحت ایون لے جایا گیا تو وہاں موجود عملہ نے کہا کہ ان کے پاس آکسیجن وغیرہ کی سہولت موجود نہیں ہے لہذا بچے کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے جایا جائے،بچے کو جب چترال لارہے تھے تور استے میں ا س کی طبیعت مزید بگڑ گئی جسے فوری طور پر بنیادی مرکز صحت بروز لے جایا گیا مگر وہاں بھی آکسیجن کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بچہ جاں بحق ہوا۔
ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر شاہ سعود سے جب رابطہ کرکے صحت کی سہولیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال میں ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ سامان کی بھی کمی ہے جس کیلئے انہوں نے صوبائی حکومت کو باقاعدہ لکھا ہوا ہے اور تحریر کے ذریعے مختلف چیزوں کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال میں آئی سولیشن کیلئے انہوں نے 20 عدد بیڈ، بیس عد د آکسیجن سلنڈر سمیت 44 چیزوں کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حالیہ کورونا کے دوسرے لہر کی روک تھام کیا جاسکے۔
حاجی وحید کا کہنا ہے کہ چترال میں آئی سپیشلسٹ تین سال پہلے ریٹائر ہوا ہے مگر ابھی تک دوسرا آئی سپیشلسٹ تعینات نہیں کیا گیا اور لوگ آنکھوں کی علاج کیلئے پشاور جانے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ چترال کی سڑکوں کی حالت نہایت خراب ہے اور بالائی چترال میں مختلف وادیاں ہیں جو ایک دوسرے سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان وادیوں میں اکثر صحت کی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے لوگ روایتی طریقوں سے علاج کراتے ہیں۔ مقامی لوگ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال جیسے پسماندہ اور دور افتادہ اضلاع کو ہنگامی بنیادوں پر صحت کی سہولیات فراہم کئے جائیں تاکہ مریضوں کو پشاور ریفر کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور ان کا علاج یہاں ممکن ہوسکے۔