مطالبات کے حق میں چترال کے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا احتجاج

اشتہارات

چترال(نذیرحسین شاہ)لیڈی ہیلتھ ورکرزایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کی کال پرچترال میں ضلع بھرسے سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سپروائزر نے اپنے مطالبات کے حق میں چترال پریس کلب کے سامنے احتجاج کیاجن میں اکثریت کے ساتھ شیرخوار بچے بھی تھے۔اس موقع پر لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن چترال کے صدر آسیہ بی بی،سینئرنائب صدرسعدیہ منصور،سیکرٹری شاہینہ محمود،فنانس سیکرٹری زاہدہ مظفر،پریس سیکرٹری حریرہ،گل شہزادی اور دوسروں نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کافی عرصہ سے نہ تو ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کا سروس سٹرکچر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پانچویں سکیل میں بھرتی ہوتے ہیں اور تمام عمر اسی سکیل میں گزار کر ریٹائر ہو جاتی ہیں جبکہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے تک بھی ان کی تنخواہ 18ہزار روپے سے زیادہ نہیں بڑھتی۔ انہوں نے سروس اسٹرکچر کو بحال کرنے اور ہیلتھ الاؤنس کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ احکامات کے تحت اپگریڈیشن اور پروموشن پر عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ 1996سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے طور پر اْن کی تقرر ہوئی ہیں اور ماں اور بچے سے متعلق حساس نوعیت کی خدمات دن رات اور سخت موسموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انجام دے رہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سابق حکومت نے ہمارے ساتھ کئی وعدے کئے تھے مگر موجودہ حکومت میں ایل۔ ایچ۔ڈبلیوکو دوبارہ سڑکوں پر آنے پرمجبورکیاہے۔ ان کاکہناتھاکہ اگرحکومت سروس سٹرکچر بدلنے، پنشن، لائف انشورنس دینے، تنخواہوں میں اضافے اور انسداد پولیومہم میں تحفظ دینے کے مطالبات پرغورنہیں کیاتوچترال سمیت ملک کے کونے کونے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا حکومتی پالیسوں کے خلاف دھرناجاری رہے گا۔انہوں نے کہاکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کیا جائے جو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے لیکر گھر گھر جا کر چترال جیسے پسماندہ علاقوں میں بھی طبی سہولیات فراہم کرتی ہیں اور کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی نہیں کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ چترال گذشتہ کئی سالوں سے پولیو فری ضلع ہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ چترال میں ایک خاتون کیلئے گھر سے باہر کام کرنا بہت مشکل ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیاکہ اسلام آباد میں جس جگہ پر دھرنا دیا ہوا ہے وہاں پر کوئی بیت الخلا بھی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین مظاہرین اپنے مطالبات کے حل کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں جوانسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔