چترال میں رکشہ سروس پر پابندی ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے، پابندی کا خاتمہ کیا جائے/قاری جمال عبدالناصر

اشتہارات

چترال(نامہ نگار)نامور مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیت و جمعیت علماء اسلام ضلع چترال لوئر کے سنیئر ناءئب امیر قاری جمال عبدالناصر نے چترال میں رکشہ سروس پر پابندی کو ناقابل فہم اور نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے اس پابندی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا کو جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کسی علاقے کی ترقی کے لئے ٹرانسپورٹ مرکزی حیثیت کا حامل ہے خاص کر ان علاقوں کے لئے جہاں ٹرانسپورٹ کے میدان میں مسائل زیادہ اور وسائل اور ذرائع کم ہوں تو عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رکشہ ایک غریب پرور سروس ہے ہم رکشہ والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے چترالی عوام کی مجبوریوں کے پیش نظر رکشہ سروس کا اہتمام کیا۔ چترال میں رکشہ سروس پر پابندی کا علم ہونے پر ذمہ دار حلقے سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا قانونی طور پر چترال میں رکشہ چلانے کے لئے روٹ پرمٹ اور پھر ضلع کی این او سی کی ضرورت ہوتی ہے جسے پیش کرنے سے رکشہ والے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چترال کے لوگ قانون کا احترام کرنے والے ہیں، قانون کا علم بھی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس چترالی عوام کے سفری مشکلات سے بخوبی آگاہ بھی ہیں،جس ضلع میں تین چار ہزار سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہوں وہاں چار رکشوں کے لئے قانون کی سختی کا سہارہ لینا بالکل نا قابل فہم ہے،جس ضلع میں ہزاروں تعداد میں موٹر سائیکل صرف بارگینوں کے رسیدات سے چل رہے ہوں وہاں رجسٹرڈ رکشوں سے فوری طور پر پرمٹ کا تقاضہ ماورائے عقل اور ماورائے انصاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں مختلف شعبوں میں مختلف لوگ اور ادارے عوام کی خدمت کے لئے موجود ہیں، حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عوامی مفادمیں ان لوگوں کو سہولیات بہم پہنچائیں نہ کہ ان لوگوں کو مشکلات سے دوچار کیا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب ایک ڈرائیورُلائسنس کے لئے ڈی سی آفس یا ڈی پی او آفس جارہا ہے تو اسے ایک رسید دیتے ہیں کہ ایک ماہ یا تین ماہ بعد آکر ٹیسٹ دے کر لائیسنس لے جائیں اور اکثر رسید کی بنیاد پر ایک بندہ کئی کئی مہینے گاڑی چلاتا ہے تو کیا ان رکشہ والوں کو بھی مہینہ تین مہینہ تک پرمٹ لانے کی مہلت نہیں دی جا سکتی ہے بہت ایسی مثالیں موجود ہیں۔ رکشہ سروس غریبوں اسٹوڈنٹس کی سروس ہے اب رکشہ والے اور عوام جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا چترال کے لئے رکشہ کامیاب ہے،کیا عوام اس سروس سے خوش ہیں لیکن ان تجرباتی جائزوں کو تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ قاری جمال عبدالناصر نے کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ کچھ آرام دہ گاڑیوں میں چلنے والے یا عوام کا چمڑی ادھیڑنے والے ٹیکسی مالکان رکشہ سروس سے نا خوش ہونگے لیکن90فیصد غریب عوام اس سروس سے خوش ہیں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر چترال اور ڈی پی او چترال سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف رکشہ سروس بحال کی جائے بلکہ قانونی تقاضے مکمل کرنے میں بھی راہنمائی کی جائے تاکہ عوام کو مہنگائی کے اس دور میں سستی سروس مہیاء ہو بصورت دیگر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ غربت کے خاتمہ کے لئے غریب کاخاتمہ ضروری ہے جو کسی بھی لحاظ سے نا قابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔