ڈپٹی کمشنر چترال کی زیر صدارت اجلاس،موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا،اب چترال سے مریضوں کو ٹیسٹ کیلئے پشاور نہیں بھیجا جائیگا،اجلاس کو بریفنگ

اشتہارات

چترال(محکم الدین)کوونا وائرس سے تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ڈپٹی کمشنر لوئر چترال نوید احمد کی زیر صدارت ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں ڈی پی او چترال وسیم ریاض، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد حیات شاہ، میجر محمد عثمان اور ڈی ایچ او چترال ڈاکٹر حیدالملک نے شرکت کیں۔ اجلا س میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ چترال اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ابھی تک کورونا وائرس فری ضلع ہے جس کو آئندہ بھی وائرس فری رکھنے کیلئے ہر ممکن کو شش کی جائے گی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ روڈ پر آمدو رفت مکمل طور پر بند ہے تاہم سرکاری اہلکاروں خصوصا ًہیلتھ کے شعبے سے وابستہ افراد کو نقل و حمل کی اجازت دی گئی ہے اور مسافر گاڑیوں کو قانون کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر پچاس ہزارروپے جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ 150سے زیادہ گاڑیوں کو خلاف ورزی کرنے پر تحویل میں لیا گیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیاکہ چترال کے روڈز بند ہونے کے باوجود یہاں خوراک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چترال میں پینتالیس دنوں کیلئے خوراک موجود ہیں، ادویات کی کوئی کمی نہیں جبکہ تیل کی بڑی مقدار ڈپو میں موجود ہے جبکہ یوٹیلٹی سٹورز میں مزید سامان عنقریب پہنچ جائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہاکہ چترال میں کامرس کالج، دروش کالج کے علاوہ پی ٹی ڈی سی موٹل، تریچ میر ہوٹل، پامیر ہوٹل کو قرنطینہ بنایا گیا ہے۔ فی الحال لوئر چترال میں 94اور اپر چترال میں 300فراد قرنطینہ میں ہیں جن کیلئے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ لوئر چترال میں دفعہ 144کی میعاد میں پانچ اپریل تک توسیع ہے اور چترال سے تمام تبلیغی جماعتوں کو فوری طور پر نکلنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے حکومتی امداد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تین ہزار اور صوبائی حکومت کی طرف سے دو ہزار روپے امداد دینے کا علان کیا گیا ہے تاہم پی ٹی آئی کے کارکن اپنی طرف سے لسٹ تیار کر رہے ہیں جس کا انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ضلعی انتظامیہ با قاعدہ طور پر ایک ٹیم کے زیر انتظام آن گراونڈ لسٹ تیار کرے گی اور اُسی کے مطابق فنڈ ملنے پر طے شدہ ریکارڈ کے مطابق امدادی رقم ادا کئے جائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا مساجد میں نمازیوں کو حکومتی احکامات پر عملدر آمد کرنا پڑے گاکیونکہ اُن ہی کی بہتری کیلئے یہ اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔ اب مسجد کے اندر بچھے ہوئے صفوں کو اُٹھانے کے احکامات ہیں کیونکہ وائرس ان بچھے ہوئے قالینوں کے ذریعے نمازیوں میں ایک دوسرے سے منتقلی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس موقع پر ڈی ایچ او حید ر الملک نے کہا کہ چترال سے تین مریضوں کو ریفر کیا گیا گیا تھاکیونکہ اُس وقت ہمارے پاس کٹس مکمل دستیاب نہیں تھے۔ اب کورونا مشتبہ مریضوں کو ریفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہاں سے مریض کے لعاب دھن (سعاب) کو ٹسٹ کیلئے بھیجا جائے گا،مریض کو مشکل میں ڈال کر پشاو نہیں لے جایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو دس کٹس فراہم کئے گئے ہیں جن میں پانچ اپر چترال اور پانچ لوئر چترال میں استعمال میں لائے جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کیلئے یہ خوشی کی بات ہے کہ اب تک تین میں سے کوئی کیس بھی پازیٹیو نہیں آیا ہے لیکن پشاور میں ہیلتھ کی خدمات انجام دینے کے دوران چترال سے تعلق رکھنے والی ایک نرس بیٹی جو وائرس سے متاثر ہو چکی ہے وہ کافی عرصے سے پشاور میں ہی مقیم ہے، تاہم اس کے خاندان کی مکمل واچ کی جارہی ہے۔


درین اثناء اپر چترال کی انتظامیہ نے گلگت سے چترال آنے والے 25افراد کو شندور کے راستے چترال میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ بالائی چترال کے وادی بروغل اور اطراف کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ افراد گلگت میں کاروبار اور محنت مزدوری کر رہے تھے کہ کورونا وائر کی وبا کے باعث کام اور کاروبار بند ہونے پر شندور سے ہو کر چترال اپنے گھروں کو آرہے تھے کہ انہیں واپس غذر بھیج دیا گیا جہاں ایک سابق وزیر کی طرف سے مہیا کی گئی رہائش مکان میں عارضی قیام پذیر ہیں۔ چترال میں انتظامیہ کی طرف سے پابندیوں کے باوجود کئی افراد ابھی سڑک کے راستے چترال میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے چترال کے لوگ کورونا وائرس کی چترال منتقلی کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ پانچ لاکھ کی آبادی کیلئے انتظامات چترال میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔