آغا خان ہیلتھ سروس کو ملنے والی مفت سرکاری ادوایات مریضوں کو فروخت کرنے کا انکشاف، کاکردگی سے عوام نالاں

اشتہارات


چترال(گل حمادفاروقی)غیر سرکاری ادارے آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان (AKHSP) نے صوبائی محکمہ صحت کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ایک معاہدے کے تحت چترال کے تین ہسپتال حاصل کئے۔اس حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سب سے پہلے دیہی مرکز صحت شاہ گرام غالباً سال 2005 میں اس کے حوالہ ہوا،اسی ہسپتال میں محکمہ صحت کی جانب سے سرکاری عملہ (ڈاکٹر، نرس، ڈسپنسر، پیرا میڈیک وغیرہ) گیارہ سٹاف کام کرتے ہیں جن کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چترال کے دفتر سے موصولہ مصدقہ دستاویزان کے مطابق ان ہسپتالوں میں جن ڈاکٹروں، نرسوں وغیرہ کی آسامیاں خالی ہیں ان آسامیوں پر متعلقہ اسٹاف بھرتی کرنے، عوام کو مفت ادویات دینے، لیبارٹری، ایکسرے کے سامان، مرمت وغیرہ کی مد میں سال 2010 سے 2018 تک بجٹ میں سے تین کروڑ اٹھتر لاکھ چار ہزار ایک سو چوالیس (30784144)روپے آغا خان ہیلتھ سروس کو دئے گئے ہیں۔ بعد ازاں صوبائی محکمہ صحت کی طرف سے رورل ہیلتھ سنٹر (RHC)مستوج بھی اے کے ایچ ایس پی کے حوالہ کیا گیا ہے جہاں سرکار کی طرف سے 19 سٹاف متعین ہیں جن کو سرکارتنخواہیں دیتی ہیں البتہ ڈاکٹروں کی کمی پورا کرنے، مفت ادویات فراہم کرنے وغیرہ کیلئے محکمہ صحت نے AKHSP کو سال2014 سے 2018 تک جوبجٹ سے ایک کروڑ اکتیس لاکھ اسی ہزار تین سو انتیس (13180329) روپے دئے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت محکمہ صحت نے مذکورہ بالا دو مراکز صحت کے بعد تیسرے نمبر تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال گرم چشمہ بھی AKHSP کے حوالے کیا جہاں سرکار کی طرف سے 47 سٹاف تعینات ہیں جن میں ڈاکٹرز، نرسز وغیرہ شامل ہیں جبکہ AKHSP کی جانب سے صرف 23عملہ ہیں۔ اس ہسپتال میں خالی آسامیاں پر کرنے، مریضوں کو مفت ادویات، لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے وغیرہ کیلئے سرکاری خزانے سے اے کے ایچ ایس پی کو تین کروڑ پنتالیس لاکھ بانوے ہزار چار سو بہتر (34592472)روپے دئے گئے ہیں جو صرف سال 2013 سے 2018 تک کا بجٹ ہے۔ اس کیلئے حکومت اور AKHSP کے درمیان باقاعدہ معاہدہ یعنی (MoU)پر دستخط ہوئے ہیں مگریہ انکشاف ہواہے کہ آغاخان ہیلتھ سروس کی طرف سے مذکورہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ گرم چشمہ ہسپتال میں تعینات ایک مالی نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہاں نہ تو کسی غریب کے ساتھ رعایت کی جاتی ہے نہ عملہ کے ساتھ۔ میری بیوی بیمار پڑ گئی جس کی علاج کیلئے مجھ سے 36000 روپے لئے گئے۔ سرکاری ہسپتال میں اگر او پی ڈی چٹ دس روپے کا ملتا ہے تو یہاں 170 روپے کا اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا چٹ بھی 280 روپے کا ملتا ہے۔سرکار کی طرف سے جو مفت ادویات ملتی ہے AKHSP ان ادویات کو غریب مریضوں پر فروخت کرتی ہے اور کسی کو مفت دوائی نہیں دیتے یہاں تک کہ ایکسرے کیلئے فلم اور سامان بھی سرکار دیتی ہے مگر ان کی بھی بہت بھاری فیس وصول کی جاتی ہے۔ان کی لیبارٹی ٹیسٹ، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کی فیس ڈیڑھ سو سے لیکر چھ سو روپے تک وصول کی جاتی ہے۔اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ ان پر ادارے کی جانب سے دباؤ ڈالاجاتا ہے کہ مریضوں کو ضرور لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ کیلئے ریفر کیا کرے تاکہ انکو زیادہ پیسے مل جائے اور ان ڈاکٹروں کو بھی بیس فی صد کمیشن دی جاتی ہے۔ سرکار کی جانب سے ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، سیکرٹری ہیلتھ، ڈی جی ہیلتھ وغیرہ نے MoU پردستخط کئے ہیں اور اس کے تحت ہیلتھ کمیٹی تشکیل دیا جا نا ہے جو ان ہسپتالوں میں فیس تعین کرے گا مگر اس معاہدے کے اس شق کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے۔تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال گرم چشمہ کے ہیلتھ کمیٹی کے چیئرمین اور ریٹائرڈ سنیئر بیوروکریٹ اسلام الدین نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں مقامی اسمٰعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہوں اور یہ ادارے ہمارے مذہبی پیشوا کے نام سے منسوب ہیں مگر جب میں نے دیکھا کہ AKHSP والے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیتے، سرکاری دوائی بھی عوام کو قیمتاً دیتے ہیں اور کسی کی بات سنتے بھی نہیں تو میں نے احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ ہسپتال میں کام کرنے والی نرسوں سے بات ہوئی تو ان بھی کہنا تھا کہ لیبارٹری وغیرہ میں ڈاکٹر نہیں ہے اور صرف ٹکنیشن سے کام لیا جاتا ہے۔ اس علاقے کے ایک سابقہ کونسلر نے کہا کہ یہاں فیس بہت زیادہ لی جاتی ہے اگر فیس کم کی جائے تو عوام کیلئے بہتر ہوگا۔ ہسپتال کے میڈیکل انچارج نے بتایا کہ اس میں زیادہ عملہ سرکاری ہے اور غریب مریضوں کے ساتھ مدد کرنے کیلئے میں اپنے دوستوں سے دوائی کے سیمپل لاکر ان کو مفت دیتا ہوں۔ اس علاقے کے سابقہ ناظم عبد القیوم نے کہا کہ یہاں AKHSP والے عوام پر ظلم کررہے ہیں ان کو لوٹ رہے ہیں سرکار کی طرف سے عوام کیلئے مفت ادویات آتے ہیں مگر یہ اتنے ظالم ہیں کہ ان مفت ادویات کو بھی مریضوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کے خلاف چیف سیکرٹری خیبر پختون خواہ، وزیر اعظم، سیکرٹری ہیلتھ، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرک ہیلتھ آفیسر وغیرہ کو باقاعدہ تحریری درخواستیں لکھ کر شکایتیں کی ہیں مگر سب بے کار۔ان لوگوں کے اتنے لمبے ہاتھ ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتی۔ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے چند سابق ناظمین نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ AKHSP والے بالائی افسران، سیکرٹری ہیلتھ، چیف سیکرٹری کو آغا خان کے سفید ہیلی کاپٹر میں لاکر ان کو سیر کرواتے ہیں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں ان کی دعوت کرکے ان کو خوش کرتے ہیں اور وہ عوام کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے کم از کم چار سابقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز سے رابطہ کرکے ان کی موقف لیا تو انDHOsکا کہنا تھا کہ سارا کچھ اوپر اوپر سے ہوتا تھا اور ہم بے بس تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب AKHSP کو دینے والے فنڈ میں تھوڑی سی تاخیر ہوتی تو ان کیلئے اوپر سے فون آتا کہ ان کو یہ فنڈ جلدی ریلیز کرے۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے AKHSP کے منیجر معراج خان سے بھی ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر انہو ں نے کیمرے کے سامنے انٹرویو دینے اور تحریری موقف دینے سے معذرت کرلیا تاہم انہوں نے زبانی طور پر بتایا کہ ہم ادارہ خسار ے میں جارہا ہے۔ مگر جب ان کو اسی ادارے کا ایک ثبوت دیا گیا جس میں دسمبر 2018 میں گرم چشمہ کے ہسپتال میں تقریباً بارہ لاکھ روپے سے زیادہ منافع ہوا تھا تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی طرح اس نے سرکاری سٹاف کی تعداد بتانے سے بھی معذوری ظاہر کی۔ اس ہسپتال کو پاکستان بیت المال اور محکمہ زکوۃ سے ملنے والی فنڈ الگ ہے مگر اس کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ مستوج میں ایک بار ڈپٹی کمشنر کے کھلی کچہری میں لوگوں نے ان ہسپتالوں کے خلاف شکایات کے انبار لگائے مگر ان شکایات پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔دسمبر 2018 میں یہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے مگر ابھی تک سرکار کی طرف سے اس NGO کو ان ہسپتالوں کیلئے کروڑں روپے کا فنڈ دی جاتی ہے۔
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعظم پاکستان، چئیرمین نیب، وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں ایک غیر جانبدار کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کی جائے کہ ابھی تک AKHSP کو کروڑوں روپے کا فنڈ دیا گیا ہے اور جو ڈاکٹر بھرتی نہیں کئے گئے اس فنڈ کو ابھی تک واپس نہیں کیا اور سرکار کی طرف سے مفت ادویات بھی عوام پر فروخت کرتے ہیں۔ نیز ان ہسپتالوں میں موجود کوارٹرز کا کرایہ بھی ابھی تک نہیں دیا گیا ہے،نہ ان ہسپتالوں سے لیبارٹری، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ سے کوئی فنڈ سرکاری خزانے میں واپس جمع کئے گئے ہیں اور یہ تمام رقم AKHSP نے ہڑپ کیا۔ اس فنڈ کو ان سے واپس لیکر سرکاری خزانے میں جمع کیا جائے اور ان کو پابند کیا جائے تاکہ وہ اس فنڈ میں خوردبرد نہ کرے اور اسے ایمانداری سے عوام پر خرچ کرے۔
واضح رہے کہ رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھی ہسپتالوں کے AKHSPکو حوالگی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنا یا اتھا کہ اس سارے عمل مالیاتی نقصان کو ہوگا۔