جونالی کوچ کی زمین ہتھیانے کیلئے سابق گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ نے ریکارڈ میں ردو بدل کیا ہے/سید اکبر حسین

اشتہارات

چترال(گل حماد فاروقی) گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے رہائشی اکبر حسین نے الزام لگاتے ہوئے کہا ہے انکے چچا اور گلگت بلتستان کے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ سرکاری دستاویزات میں ردو بدل کرکے مجھے جونالی کوچ چترال میں جائیداد سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چترال میں مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر حسین نے انکشاف کیا کہ اربوں روپے مالیت کی جائیداد ہتھیانے کی خاطر سرکاری دستاویزات میں ردو بدل کرنے کی کوشش کے طور پر سابق مہتر چترال ہز ہائنس شجاع الملک سے منسوب ایک جعلی سند ریکارڈ میں رکھنے کی کوشش بے نقاب ہو چکی ہے۔ سید اکبر حسین کے آباء و اجدا دجونالی کوچ چترال سے گلگت بلتستان کے ضلع غذر یاسین منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کا سابق گورنر پیر کرم علی شاہ رشتے میں میرے چچا ہیں تاہم وہ جونالی کوچ میں اربوں روپے کی زمین سے مجھے محروم کرکے اسے صرف اپنے نام انتقال کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سابق گونر پیر کرم علی شاہ نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے نیشنل آرکائیوز لائبریری پشاور میں بھی چترال کے سابق حکمران سر شجاع الملک سے منسوب ایک سند رکھ کر اسے چیف لائبریرین شاہ مراد چترالی سے تصدیق (اٹیسٹ) بھی کروایا جس میں جعلی طور پر یہ تحریر تھا کہ جونالی کوچ والی زمین کو شجاع الملک نے ان کے بزرگ پیر جلالی شاہ کے نام ہبہ کیا ہے، مگر مجھے جب معلوم ہوا تو میں نے لینڈ سٹلمنٹ آفیسر چترال کے دفتر میں تحریری درخواست دی کہ اس سند کے بابت تحقیقات کی جائے۔ جب انہوں نے پشاور کو اس سلسلے میں ایک خط لکھا تو اس کے جواب میں 29 اپریل 2019 کو ڈائریکٹر آرکائیوز اینڈ لائبریری نے جواب دیا کہ اس نام کے کسی سند کا ہمارے ریکارڈ کے بنڈل نمبر12سے 22 تک کوئی وجود ہی نہیں ہے مگر اس نے اپنے افسر کو بچانے کیلئے یہ لکھا کہ شائد چترال کے لینڈ سٹلمنٹ افسر نے ریفرنس نمبر غلط لکھا ہو مگر اس کے بعد اس پر کوئی خط و کتاب یا کاروائی نہیں ہوئی تاہم اس عمل سے یہ ثابت ہوا کہ جس سند کو پیر کرم علی شاہ نے لائبریری کے ریکارڈ میں اپنے ذاتی مفادات کیلئے رکھا تھا وہ سند جعلی ہے جس پر مزید انکوائری ہونا چاہئے۔ اکبر حسین کے مطابق سابق گورنر کے بیٹے سید جلال شاہ نے چترال میں اپنے ایک کارندے محمد علی شاہ کے ذریعے ڈپٹی کمشنر کے زیرنگرانی جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند نہایت ہوشیاری سے رکھوایا اور اسے ریکارڈ کیپر سے تصدیق بھی کروایا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جعلی ہے تو جوڈیشل کونسل چترال کے ریکارڈ کیپر شیر احمدخان نے ڈپٹی کمشنر کو باقاعدہ تحریری درخواست دیا کہ محمد علی شاہ نامی شخص نے جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند رکھ کر جونالی کوچ والی زمین پیر کرم علی شاہ گورنر کے نام ہتھیانے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ شخص شیر احمد خان نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کے دوران تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ میں انے اپنے نائب قاصد سے پوچھا بھی تھا کہ آیا جس سند کی فوٹوسٹیٹ لایا گیا ہے اس کا اصل ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے کہ نہیں تو اس نے جواب ہاں میں دیا، مگر جب وہی شخص دوبارہ آیا اور اس کی مصدقہ کاپی مانگی تو میں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ جعلی ہے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست لکھا جسے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فیاض قریشی کے حوالہ کیا گیا۔ سید اکبر حسین نے مزید بتایا کہ وہ انکوائری اپریل میں شرو ع ہوئی تھی مگر چونکہ گورنر صاحب ایک تو سیاسی طور پر نہایت مضبوط شخص ہیں اور مالی طور پر بھی مستحکم ہیں تو سفارش اور پیسے کی وجہ سے وہ انکوائری چار مہینے تک لٹکتی رہی۔ اکبر حسین نے بتایا جب مجھے پتہ چلا کہ وہ انکوائری رپورٹ 24 جولائی کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیجا گیا تو میں نے ڈپٹی کمشنر کو باقاعدہ تحریری درخواست دی کہ اس انکوائری کی ایک مصدقہ کاپی مجھے معلومات تک رسائی ایکٹ 2014 کے تحت دی جائے تو انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو لکھ کر ہدایت کی کہ اس کی نقل مجھے فراہم کی جائے مگر جب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا تو انہو ں اس کی نقل دینے سے صاف طور پر انکار کیا۔ سید اکبر حسین نے الزام لگایا کہ چونکہ گورنر صاحب بہت با اثر آدمی ہیں یہی وجہ ہے کہ چترال انتظامیہ بھی انکی ایماء پر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور میڈیا کو بھی کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتی۔ انہوں نے اپنے موقف کے حق میں اسناد پیش کئے جس میں سابقہ لینڈ سٹلمنٹ آفیسر شاہ نادر کے وقت میں باقاعدہ انکوائری ہوئی تھی اور تحصیلدار نے اپنے سفارشات میں لکھا تھا کہ سید اکبر حسین شاہ کو بھی شجرہ نسب میں شامل کیا جائے اس انکوائری کا مفہوم یہ تھا کہ اکبر حسین شاہ جونالی کوچ والی زمین کا برابر کا حقدار ہے۔ سید اکبر حسین نے سر شجاع الملک کا ایک اصلی سند میڈیا کو دکھایا جسے کسی اور شخص کو دیا گیا تھا جس پر باقاعدہ ایک مہر بھی لگا ہو اہے اور اس سند کا طریقہ کار ہی مختلف تھا۔ سید اکبر حسین نے نہایت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس نے سنا تھا کہ خیبر پختون خواہ میں انصاف ہے اور نئے پاکستا ن میں حق دار کو ضرور حق ملے گا مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اسے طویل عرصے تک کوشش کے باوجود انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلےٰ محمود خان کے ساتھ ساتھ وزیر مالیات شکیل خان سے بھی پرزور اپیل کی ہے کہاس سلسلے میں ایک اعلےٰ سطحی جوڈیشل انکوائری کی جائے جس میں نہایت ایماندار غیر مقامی افسران ہوں تاکہ ان جعلی سندوں کا کھوج لگائے اور اس زمین کو مافیا کے چنگل سے واگزار کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس جعل سازی میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا دلوایا جائے تاکہ آئندہ کوئی اور شخص اتنی دیدہ دلیری سے جعل سازی نہ کرے۔
ہمارا نمائندہ باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر جاکر اس کا موقف جاننا چاہا تو ڈپٹی کمشنر نے کسی قسم کی انٹرویو یا بات کرنے سے انکار کیاتاہم انہوں نے اکبر حسین کی درخواست پر لکھ کر دیا کہ اسے اندرونی نقل فراہم کی جائے مگر اے ڈی سی چھٹی پر ہے ابھی تک وہ نقل موصول نہیں ہوئی۔ ہمارے نمائندے نے اس سلسلے میں ریکارڈ کیپر شیر احمد خان کا انٹرویو کرنا چاہا توا س کا جواب تھا کہ وہ اپنے افسران بالا سے اجاز ت لیکر پھر انٹر ویو دے گا۔جب ہمارے نمائندے نے جوڈیشل کونسل اور محافظ خانہ کی دفتر کی ویڈیو بنانا چاہا تو اسے روک دیا گیا کہ اس کیلئے بھی ڈی سی کا اجازت چاہئے اور اسکے بعد شیر احمد خان نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حیات شاہ سے فون پر بات کرے اجازت مانگی مگر اسے اجازت نہیں ملی۔بعد ازاں ہمارے نمائندے نے خود اس سے بات کرکے اجازت مانگی کہ وہ صرف اس سرکاری عمارت کا جو پبلک پلیس ہے اس کا ویڈیو کرنا چاہتا ہے تو اس نے انکار کیا۔ ہمارے نمائندے نے اس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر چترال عالمگیر خان کو باقاعدہ تحریری درخواست دی کہ وہ جوڈیشنل کونسل کا وزٹ کرنا چاہتاہے اور اس کا ویڈیو کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ دونوں دفاتر ڈپٹی کمشنر کے زیر نگرانی ہیں میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر چترال جو چھٹی پر گئے تھے اس کے واٹس اپ نمبر پر باقاعدہ پیغام بھیجا گیا کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ ان دونوں عمارتوں کا صرف ویڈیو بنائے مگر کوئی جواب نہیں ملا۔اس بات کو رائٹ ٹو انفارمشین کمیشن کے ایڈمن آفیسر اور چیف کمشنر رائٹ ٹو سروس کمیشن اور سیکرٹری بلدیات کے نوٹس میں بھی لایا گیا۔
اس سلسلے میں جب ہمارا نمائندہ لینڈ سٹلمنٹ آفسیر سید مظہر علی شاہ کے پاس جاکر اس کاموقف لینے کی کوشش کی تو مظہر علی شاہ نے تحریری طور پر اپنا موقف دیتے ہوئے لکھا کہ درخواستی نے تین درخواستیں اس دفتر میں جمع کئے تھے، ایک اپنے نام پر، دوسرا اپنے بیوی کے نام پر اور تیسرا اپنے رشتہ دار رضوان کے نام پر جن میں دو درخواستیں تو منظور ہوئی مگر اکبر حسین شاہ کا درخواست اسلئے مسترد کیا گیا کہ وہ دور کا رشتہ دار ہے۔ مزید انہوں نے تحریری کیا کہ موجودہ بندوبستی ریکارڈ کے مطابق جونالی کوچ میں سید اکبر حسین شاہ کی کوئی جائداد نہیں ہے تاہم اگر وہ کسی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لائے یا سر شجاع الملک کی طرف سے منسوب سند مورخہ 18.02.1929 جو آرکائیوز لابیریری پشاور میں جمع کیا گیا، اسے جعلی ثابت کرے تو پھر بندوبستی ریکارڈ میں حسب ضرورت ترمیم ہوسکتی ہے۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ جب آپ نے اسی سند کی تصدیق کیلئے آرکائیو زلائبریری کو لکھا تو ان کا جواب تھا کہ اس نام کا کوئی سند اس بنڈ ل میں موجود نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ سند جعلی ہے تو ان کا جواب تھا کہ شائد وہ سند کسی اور بنڈل میں موجود ہو۔