خود کشی کے واقعات؛ایک ہفتے کے دوران تین بچیوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا

اشتہارات

چترال(گل حماد فاروقی) چترال میں رواں ہفتے میں تین لڑکیوں نے خودکشی کرلی جن میں سے ایک لڑکی کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔ تفصیلات کے مطابق مسمۃ سفیرہ بی بی دختر لغل خان سکنہ واشیچ تورکہو حال مقیم جغور نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی جسکی لاش ابھی تک نہیں ملی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ متوفیہ نے حالیہ میٹرک امتحان اچھے نمبروں سے پاس کی تھی۔ لڑکی کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انکی دماغی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ پچھلے سال جب میٹرک اور ایف اے کا رزلٹ آیا تھا تو تقریباً سات طالبات اور طلباء نے بھی خودکشی کی تھی کیونکہ ان کے نمبر کم آئے تھے مگر اس لڑکی کی نمبر زیادہ ہونے کے باوجود اس نے خودکشی کرلی۔
ایک اور واقعے میں دروش کے علاقہ ججریت کوہ کے پڑینگائے گول گاؤں میں رضیہ بی بی دختر عمرا خان عمر پندرہ سال اپنے گھر کے اندر پستول سے فائرنگ کرکے خودکشی کرلی تھی۔ رضیہ بی بی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ میرگی کی مریض تھی اور اس نے پہلے بھی کئی بار خودکشی کی کوشش کی تھی۔وہ پہلی بھی کئی بار پہاڑی سے گری تھی۔ مقامی پولیس نے زیر دفعہ 156 تفتیش شروع کی ہے۔
خود کشی کے ایک اور واقع میں شغور کے علاقہ پرسن میں ایک اور لڑکی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔ شغور پولیس کے مطابق شازیہ بی بی دختر گل حکیم نے حال ہی میں میٹر ک کے امتحان میں کم نمبر لئے تھے جس پر وہ دل برداشتہ ہوکر زہریلی دوا کھالی،اسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا جہاں وہ جاں بحق ہوئی۔ پولیس نے تفتیش شروع کردی۔
چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان سے علاقے کے عوام میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پورے چترال میں کوئی سائکاٹرسٹ یعنی دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر تک نہیں ہے اور بے سہارا اور مایوس خواتین کیلئے کوئی دار الامان، پناہ گاہ یا کوئی بھی محفوظ جگہ سرکار کی طرف سے نہیں ہے جہاں جاکر یہ خواتین پناہ حاصل کرسکے اور خودکشی سے بچ سکیں۔ چترال کے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے ان خواتین کیلئے تھانہ چترال کے اندر ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر بھی کھولا تھا جہاں صرف خواتین عملہ ڈیوٹی کررہی ہے تاکہ اگر کسی خاتون کو کوئی مسئلہ ہو جسے مرد پولیس اہلکار کے سامنے بیان نہیں کرسکتی تو وہ زنانہ پولیس عملہ کے سامنے اپنی دل کی بات کرکے رپورٹ درج کرواسکے۔
چترال کے سماجی اور سیاسی طبقہ فکر ریاست مدینہ کے حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال میں ڈیڑھ سو ڈاکٹروں کی آسامیاں جو کئی سالوں سے خالی پڑے ہیں ان کو فوری پر کیا جائے اور چترال کے ہر بڑے ہسپتال میں ایک، ایک سائکاٹرسٹ ڈاکٹر بھی تعینات کیا جائے تاکہ اس قسم ذہنی مریضوں کا بروقت علاج کرواکر ان کو خودکشی سے بچایا جاسکے۔