دوحہ امن مذاکرات ۔۔۔پاکستان کی سفارتی و عسکری کامیابی کا مظہر/اداریہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کے امن و استحکام پر سوال اٹھا دیا تھا۔ افغان فورسز کی جانب سے سرحدی چوکیوں پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جوابی اقدامات نے صورتِ حال کو انتہائی سنگین بنا دیا۔
تاہم برادر اسلامی ممالک ترکی، سعودی عرب اور قطر کی کوششوں سے ہونے والی 48 گھنٹے کی جنگ بندی اور بعد ازاں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں مذاکرات کا آغاز خطے میں امن کیلئے نہایت اہم ثابت ہوا ۔ ساتھ ہی یہ پاکستان کی سفارتی اور عسکری حکمتِ عملی کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہمیشہ دوٹوک اور اصولی رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہوں، تربیتی مراکز اور لاجسٹک سپورٹ سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں۔
یہ وہی حقیقت ہے جسے دنیا نے اب تسلیم کرنا شروع کیا ہے۔ پاکستان نے بارہا سفارتی سطح پر افغانستان کو اس بابت متنبہ کیا لیکن جب اس کے باوجود دہشت گرد حملے بڑھتے گئے تو پاکستان نے اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھایا۔
پاکستانی فضائیہ کی جانب سے کابل کے اندر مخصوص اہداف کو نشانہ بنانا محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھی بلکہ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔
اس کارروائی نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کو یہ باور کرایا کہ اب پاکستان نہ تو محض تماشائی رہے گا اور نہ ہی اپنی سرحدوں پر حملے برداشت کرے گا۔
افغان فورسز کی طرف سے جوابی کارروائیاں یقیناً قابلِ مذمت تھیں، تاہم پاکستان نے نہایت ذمہ داری اور مضبوط دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر حملے کا موثر جواب دیا۔
اس عسکری کامیابی نے پاکستان کا موقف مزید مضبوط کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں۔
اس پس منظر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات نہ صرف ایک سفارتی پیش رفت ہیں بلکہ پاکستان کی عسکری حکمتِ عملی کا تسلسل بھی ہیں۔
مذاکرات کے دوران افغانستان کی جانب سے بالآخر یہ تسلیم کیا جانا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین پر موجود ہیں، اور انہیں روکنے کی یقین دہانی دینا، پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
یہ وہ موقف ہے جو پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی برادری کے سامنے رکھتا آیا ہے۔
دوحہ مذاکرات اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اب نہ صرف عسکری طور پر مضبوط مؤقف رکھتا ہے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی اس نے اپنی پوزیشن منوا لی ہے۔ پاکستان نے دشمن کو پیغام دیا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے، مگر امن کمزوری سے نہیں بلکہ طاقت کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے سمجھے، اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرے، اور خطے کے امن و استحکام میں تعمیری کردار ادا کرے۔
اگر امارتِ اسلامیہ افغانستان نے دوحہ مذاکرات میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا، تو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
پاکستان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف غیر متزلزل عزم، سفارتی بصیرت اور عسکری صلاحیت کے امتزاج سے اپنی سرزمین کے تحفظ اور خطے کے امن کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔