پہلگام حملہ ، دہشت گردی یا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی چال؟ تحریر: رامین رعنا

22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں ایک افسوسناک اور حیران کن واقعہ پیش آیا، جس میں فائرنگ کے نتیجے میں 27 سیاح جاں بحق ہو گئے۔ بھارتی میڈیا اور حکومت نے فوری طور پر اس حملے کو "دہشت گردی” قرار دے کر اس کا الزام پاکستان اور کشمیری حریت پسندوں پر ڈال دیا، لیکن حالات و شواہد ان بے بنیاد دعوؤں کے برعکس ہیں۔
پہلگام ایک ایسا مقام ہے جہاں بھارتی فوج، پیرا ملٹری فورسز اور انٹیلیجنس اداروں کی بھاری نفری ہر وقت موجود رہتی ہے۔ داخلی راستے، ہوٹل، اور اہم مقامات سیکیورٹی چیک پوسٹس سے محفوظ کیے گئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی سخت نگرانی میں نامعلوم مسلح افراد کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟ بارڈر مکمل طور پر بھارت کے کنٹرول میں ہے، تو پھر حملہ کیسے ممکن ہوا؟
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، حملے سے پہلے ہی انٹیلیجنس الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا کہ چند مشکوک افراد علاقے میں ہوٹلوں کی ریکی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود حملے کے وقت نہ پولیس موجود تھی، نہ ہی فوج۔ زخمیوں کو مقامی افراد خچروں پر نیچے لا رہے تھے، جو خود ایک سوالیہ نشان ہے۔
یہ سب کچھ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے یہ واقعہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ بند حملہ تھا۔ حملے کے فوراً بعد بھارت نے الزام پاکستان پر عائد کیا، حالانکہ نہ تو کوئی ثبوت پیش کیا گیا، نہ ہی واقعے کی آزاد تحقیقات کی اجازت دی گئی۔
معروف بھارتی یوٹیوبر دھروو راٹھی نے اپنی ویڈیو میں کئی بنیادی سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا صرف وی وی آئی پی، بزنس مین اور فلمی ستارے ہی بھارتی ریاست کے لیے اہم ہیں؟ اگر مکیش امبانی کو 55 این ایس جی کمانڈوز پر مشتمل Z+ سیکیورٹی فراہم کی جا سکتی ہے، تو عام شہری غیر محفوظ کیوں ہیں؟ اگر پیشگی اطلاع موجود تھی تو سیکیورٹی فورسز موقع پر کیوں نہ تھیں؟
اسی تناظر میں، کشمیری حریت پسند رہنماؤں نے اس حملے میں ملوث ہونے کی واضح تردید کی۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان کی جدوجہد قابض افواج کے خلاف ہے، نہ کہ معصوم شہریوں کے خلاف۔ وہ ہر اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں جس میں بے گناہ جانوں کا نقصان ہو۔
حملے کے بعد پاکستان نے بھارتی الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت نے اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، جبکہ پاکستان کے پاس بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق، بھارت اندرونی کمزوریوں اور سیاسی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے False Flag Operations کا سہارا لیتا ہے۔
اس واقعے کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت سفارتی اقدامات کیے، جن میں ویزہ سروسز کی معطلی، سفیروں کی واپسی اور تجارتی تعلقات کا تعطل شامل ہے۔ ان اقدامات نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔
دوسری جانب، بھارت کے اندرونی حالات بھی انتہائی خراب ہیں۔ اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے مظالم، مسلمانوں اور سکھوں پر حملے، اور شمال مشرقی ریاستوں میں شورش نے مودی حکومت کو سخت دباؤ میں ڈال رکھا ہے۔ ایسے میں پہلگام جیسے حملے بی جے پی حکومت کے لیے ایک موقع ہوتے ہیں تاکہ وہ عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹا کر "قومی سلامتی” کا بیانیہ اپنائے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرے۔
بھارتی میڈیا حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی میں بدل کر پیش کرتا ہے۔ بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مسلسل "خطرے” میں رہیں تاکہ وہ خوف کی بنیاد پر بی جے پی کو ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے بعد مسلسل بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں۔
پہلگام حملہ محض ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک ممکنہ "False Flag Operation” معلوم ہوتا ہے — ایسا حملہ جو بھارت نے خود کرایا تاکہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالے اور دنیا کو گمراہ کرے۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور عالمی میڈیا کو چاہیے کہ وہ بھارت کی ریاستی پالیسیوں، مقبوضہ کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ، اظہارِ رائے پر پابندیاں، اور فوجی تسلط کا غیرجانبدار تجزیہ کریں۔ پہلگام حملہ ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔