داخلہ فیس/تحریر: محمد جاوید حیات

اشتہارات

آج حینا قوم کی بیٹی ،محنتی ،مہذب اور شائستہ بیٹی پہلی بار یہ سن رہی تھی کہ کسی امتحان کے لیے فیس بھی بھری جاتی ہے ۔۔سرکاری سکولوں میں سالانہ معمولی فیس لی جاتی ۔۔ وہ بھی قابل اور مستحق بچوں کو معاف کیا جاتا اور حینا ہر امتحان میں اول آکر انعامات لیتی پھر انعامات کی رقم سے اپنے لیے جوتے خریدتی اور اپنے چھوثے بھائی کے لیے بستہ خریدتی۔۔۔اس دن حینا ایک ملکہ کا سا روپ دھارتی بڑے فخر سے بھائی سے کہتی ۔۔۔
یہ لو زوہیب تمہارا بستہ ۔۔۔ ماں واری جاتی لیکن کچھ کہتی نہیں ۔۔آج حینا نے انگریزی کی کاپی دیکھانی تھی اس کے سکول کے کام پورے تھے کل ہی سر نے آخری سبق پڑھا کر مشقی کام بھی کیا تھا ۔آج استاذ حینا کی کاپی چیک کرکے اس کو شاباش دیتی حینا یہ خواب دیکھ رہی تھی ۔استاذ جی کمرے میں داخل ہوئے ۔۔۔کہا حاضری لینے سے پہلے سنو بچو! تمہیں پتہ ہے کہ اس سال تم لوگ بورڈ کا امتحان دوگے اس کے لیے بورڈ کا داخلہ فیس بھرنا ہوگا ۔۔۔ہر بچہ دو ہزار پانچ سو روپے لائے، ایک ہفتے کے اندر مانیٹر کے ساتھ جمع کریں یہ ایسی فیس نہیں کہ معاف کی جائے گی ۔۔حینا پر آسمان گرتا محسوس ہوا ۔۔اس کی ماں کا مشقت سے ٹوٹتا ہوا جسم یاد آیا کہ رات کراہ کراہ کر کروٹ بدلتی ۔۔حینا کو اس کے ابو کی وفات کا لمحہ یاد آیا ۔۔گاوں کے قاضی نے اس کی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔بیٹی اللہ مالک ہے ان معصوم بچوں کے جینے کا بندوبست کرے گا ۔اس سمے حینا کی بھتیجی نے کلاس میں اچھل کر کہا میں آج ہی ابو سے کہوں گی کہ میرے امتحانی فیس ۔۔۔یہ کہتی ہوئی اس نے حینا کی طرف دیکھا ۔حینا پگھل گئی۔۔اس کو بہت کچھ یاد آئے ۔۔۔ہھر امتحان ۔۔۔امتحان ۔۔۔ زندگی پوراامتحان ہےلیکن غربت کا امتحان سب سے مشکل امتحان یے بڑا مشکل پرچہ ہے ۔۔حینا آج کلاس روم سے باہر نہ نکلی ریسس میں بھی کلاس میں بیٹھی رہی ۔گلاب سا چہرہ بجھا ہوا ۔آواز خلق میں اٹکتی ۔۔۔آنکھوں میں نمی ۔۔۔یہ چیختے چہکتے بچوں کو دیکھ کر اس کو عجیب لگتا ۔۔کہ یہ ہنستے کیوں ہیں۔۔ان کو فیس یاد کیوں نہیں آتی ۔۔ایک جیا تھوڑا غمگین نظر آتی ۔۔حینا سکول سے گھر گئی چہرے پہ افسردگی چھائی ہوئی ماں نے کرید کرید کر وجہ پوچھی ۔۔حینا نے نم آنکھوں سے بتایا ۔۔ماں جی اندر سے ٹوٹ سی گئی ۔۔۔لیکن حینا کا دل رکھنے کے لیے کہا حینا تمہاری ماں زندہ ہے ۔۔۔پورے گھرانے پر غربت کا سایا آج گہرا تھا ۔۔حینا کی ماں دوچار گھروں میں قرض مانگنے گئی مایوس واپس آئی۔۔رات کو بھائی بہن اور ماں بیٹھی تھیں کہ بھائی نے بہن کے گلے لگ کر افسردگی کی وجہ پوچھی بہن نے بتا دیا ۔۔بھائی نے کہا حینا باجی میرا یہ نیا کوٹ کل ہی سکول میں مجھے دیا گیا ہے ۔۔میں سردی برداشت کروں گا مجھے بالکل سردی نہیں لگتی یہ بیچ دیں گے اور آپ کی فیس بھریں گے ۔۔بہن نے بھائی کو گلے لگا کر خوب روئی ۔۔دوسرے دن کلاس میں جیا کی افسردگی کی وجہ حینا نے پوچھی ۔۔۔جیا نے کہا کلاس کی انگریزی کی کاپی اس کے ہاتھ سے پانی بھری بالٹی میں گر گئی سارا سکول ورک برباد ہوگیا اب استاذ اگر پوچھے کہ کاپی دیکھاو تو میری شامت آئے گی ۔۔حینا کو یکدم تجویز سوجھی کہا کہ تم نئی کاپی خرید کے مجھے دیدو میں اپنی کاپی سے نقل کرکے یہ پوری کروں گی لیکن اس کے عوض تم میری فیس ۔۔۔۔۔ حینا اس سےآگے کچھ نہ کہہ سکی ۔۔۔جیا نے قریبی دکان سے کاپی خرید کے دی ہفتے کا دن تھا ۔حینا سکول سے گھر گئی پہلی بار مزدوری کا تجربہ تھا شام کے کھانے کے فورا بعد کاپی لکھنا شروع کیا یہ رات دوسرے اتوار کا پورا دن پھر اگلی رات حینا نے جیا کی کاپی مکمل کی ۔۔دوسرے دن حینا ایک فاتح جنرل کی طرح سکول گئی آج سر کاپیاں دیکھیں گے ۔۔مانیٹر فیس کا کہے گا ۔۔جیا اپنی نئی کاپی دیکھائے گی استاذ سے داد وصول کرے گی اور ساتھ کسی کو اصل واقعے کا پتہ نہیں ہوگا وہ مانیٹر سے کہے گی کہ کل حینا کی فیس وہ بھرے گی ۔۔حینا نے جیا کو کاپی دیدی اور اس کا وعدہ بھی یاد دیلایا ۔۔اس نے بڑی حقارت سے کہا پاگل ہو تم ۔۔۔ حینا کے پاوں تلے سےزمین کھسکتی نظر آئی ۔حینا کو اس کی مجبوری پھر راتوں کو بیٹھ کر کاپی لکھنا،جیا کا وعدہ ۔۔۔پھر حینا کو یاد آیا یہ سارے لوگ یہ بڑے بڑے نوٹ جیبوں میں ٹھونس کر کیا کر رہے ہیں یہ ضرورت مندوں کو دیتے کیوں نہیں ہیں یہ سارے اساتذہ جو بھاری بھاری تنخواہیں لیتے ہیں یہ رقم رکھتے کیوں ہیں ۔۔۔یہی اساتذہ کلاس میں مدد، شرافت ،سخاوت ،ہمدردی وغیرہ کی باتیں کرتے ہیں نغوذ باللہ کیا یہ جھوٹ بول رہے ہیں یا صرف دوسروں کے لیے بول رہے ہیں اپنے لیے نہیں ۔۔۔۔حینا نے سوچا۔۔۔ اللہ میں تیری دنیا سے تھک گئی۔۔۔تجھے تیری دنیا مبارک ہو ۔۔حینا نے سوچا کہ وہ کلاس سے نکلے گی اور قریبی دریا کے اوپر پل سے یہ کہتے ہوۓ نیچے دریا میں چھلانگ لگائےگی ۔۔۔ کہ دنیا بنانے والے میں تیری دنیا چھوڑ کر تیری طرف آرہی ہوں ۔۔۔یہ انسانوں کی نہیں پتھروں کی دنیا ہے ۔حینا اٹھی ہی تھی کہ استاذ صاحب کلاس میں داخل ہوئے ۔۔حاضری لی اور کاپیوں کا پوچھا ۔۔۔جیا بڑے فخر سے کاپی اٹھا کے ان کے پاس گئی ۔۔پوچھنے پر بتایا کہ انھوں نے دو دن میں دوبارہ سے کاپی لکھی ہے ۔۔۔استاذ نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ۔۔۔جیا دنیا میں دو رسوائیاں ہیں ایک جھوٹ دوسرا غرور ۔۔۔انسان جھوٹ نہ بولے اور اپنی دولت ،شہرت ،خاندان وغیرہ پر فخر نہ کرے ۔۔۔جیا زندگی گزارنے کی چیز نہیں لڑنے کی چیز ہے ۔۔اس کو گزارنا نہیں چاہیے اس سے لڑنا چاہیے ۔۔یہ جملہ گویا حینا کے رگ رگ میں بجلی کی کرنٹ کی طرح دوڑ گئی۔۔ استاذ نے کہا جیا یہ تمہاری تحریر نہیں کسی اور کی تحریر ہے ۔۔۔میں سب کا انداز تحریر سمجھتا ہوں ۔۔۔جیا سچ سچ بتاو ۔۔۔جیا نے سچ سچ بتایا ۔۔۔استاذ اپنی جگہ سے اٹھے ان کا سارا بدن پسینے میں ڈوب گیا تھا وہ پگھل گیا تھا اسے احساس ہوا تھا کہ وہ پتھرکیوں تھا اس کو حینا کے بارے میں کیوں پتہ نہیں تھا ۔۔اس کو اس کی بیٹی شگوفہ یاد آئی تھی کہ وہ مہنگے پبلک سکول میں پڑھتی تھی اس کو کبھی فیس کا مسئلہ درپیش نہیں ہوا تھا ۔۔۔استاذ نے حینا کی فیس مانیٹر کی ڈسک میں پھینکا تھا اور حینا کا سر اپنے دل سے لگا کر کہا ۔۔۔حینا تم میری بیٹی ہو ۔۔۔۔حینا کی آنکھوں سے آنسو استاذ کے دل پہ گر رہے تھے اور استاذ کے آنسو حینا کے سر پہ گر رہے تھے ۔۔۔حینا کے فیس بھری گئی تھی اور کمرہ جماعت انسانیت کی خوشبو سے بھرگیا تھا ۔