اے کے ایچ ایس پی میں ذہنی امراض کا شعبہ/تحریر: محمد جاوید حیات

چترال میں اکثر بے چینی، ٹنشن، اینزائٹی کے مسائل ہیں اکثر نوجوان مرد اور خواتین ان مسائل کا شکار ہیں

اشتہارات

چترال میں اکثر بے چینی، ٹنشن، اینزائٹی کے مسائل ہیں اکثر نوجوان مرد اور خواتین ان مسائل کا شکار ہیں آئے روز خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں ان واقعات کے پس منظر میں بظاہر کوئی بڑی وجہ نہیں ہوتی البتہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور انزائٹی ہوتی ہے جو صحت کے مسائل ہیں ایک وجہ ذاتی،خاندانی وغیرہ بھی ہے جو اگرچہ معمولی دباؤہے لیکن چترال کے باشندے نازک مزاج اور جذباتی واقع ہوئے ہیں جو صبرو برداشت میں کمزور ہیں اس لیے وہ اپنی جان تک ضائع کرتے ہیں اس سلسلے میں کونسلنگ اور رہنمائی ضروری ہے جو خاندان اور تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشرہ بھی انجام دے سکتا ہے۔اے کے آر ایس پی چترال جیسے پسماندہ علاقے میں کئی میدانوں میں کئی سالوں سے خدمات انجام دے رہا ہے ان شعبوں میں اہم شعبہ(AKHSP)آغا خان ہیلتھ سروس آف پاکستان ہے۔یہ شعبہ ذہنی صحت کا ہے۔ یہ شعبہ مختلف تعلیمی اداروں، سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں اور نجی تنظیمات کے تعاون سے گاؤں کی سطح پر لوگوں کو جمع کرکے آگاہی پروگرام کا انعقاد کرتا ہے۔ اس کے بڑے مثبت نتائج آرہے ہیں۔حال ہی میں تورکھو تحصیل کے گاؤں اجنو میں جہان پر ایک خاص موضع (رامنچ گاؤں) میں کئی ذہنی مریض ہیں اور آئے روز ان مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے ایک آگاہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔گاؤں کے سیاسی اور فعال سماجی کارکن ذاکر محمد زخمی کی کوششوں سےAKHSP کے معراج صاحب نے آگاہی مہم کا انتظام کرایا۔محترمہ حلیمہ سلیمان جن کا تعلق اپر چترال کے گاؤں کشم سے ہے اس پروگرام کی نگرانی کی۔حلیمہ سلیمان کی پیدائشی تعلیم پشاور میں ہوئی وہ چترال کی ایک فعال محنتی اور قابل بچی ہیں۔انہوں نے سیکالوجی میں ایم ایس سی کیا اور پچھلے دو سالوں سے AKHSP میں بطور کلینیکل سائیکالوجسٹ خدمات انجام دے رہی ہیں انہوں نے اپر چترال اور لوئر چترال کے کئی تعلیمی اداروں اور عوامی اجتماعات میں ذہنی صحت اور دوسرے مسائل پر کامیاب ورکشاپس اور آگاہی لکچرز کا اہتمام کیا۔ان آگاہی مہمات کے بڑے مثبت نتائج آئے۔حلیمہ اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کر رہی ہیں اورچترالی معاشرے کے اس بڑے گھناونے مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں مذکورہ گاؤں اجنو میں ان کا پروگرام بڑا کامیاب رہا وہ زخمی صاحب اور گاؤں کے لوگوں کا شکر گزار ہیں اور بہترین تعاؤن پر ممنون ہیں انہوں نے وہاں پر چند مریضوں کا معائنہ بھی کیا اور ایک مریض کو بونی ریفرکیا جہاں پر ذہنی صحت کا بین الاقوامی سطح کا کلینک موجود ہے جس میں ذہنی مریضوں کا آن لائن علاج کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر عادل کئی سالوں سے وہاں پر قوم کی خدمت کر رہا ہے انہوں نے کئی مریضوں کا کامیاب علاج کیا ہے چترال لوئر میں ڈائیگناسٹک سنٹر چترال میں اسی طرح کا کلینک کام کر رہا ہے جہاں پر مریضوں کاعلاج کیا جاتا ہے۔چترال کے اس اہم مسلے کے حل میں AKHSP کی کاوشیں قابل تحسین ہیں مجھ سے جب حلیمہ نے رابطہ کرکے اپنی سرگرمیوں کا ذکر کیا تو میں داد دینے اورشکریہ ادا کرنے پہ مجبور ہوگیا۔قوم کی اصل خدمت عمل سے اور عمل کرنے سے ساتھ کارکردگی دیکھانے سے ہوتا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عمل پر یقین نہیں رکھتے اور خالی باتوں پہ بہت یقین رکھتے ہیں۔کوئی ایسا ادارہ جو مضبوط سسٹم کے اندر خاموش کارکردگی دیکھا رہا ہے اس کی تعریف نہ کرنا بہرحال عیب ہے۔چترال کی نوجوان نسل جس ڈپریشن کا شکار ہے اس کا مناسب علاج اور وجوہات کی کھوج لگنا بحیثیت قوم ہم پر لازم ہے۔ہم بے چین کیوں ہیں؟ہماری ذہنی صحت کیوں بگڑرہی ہے؟ ہماری نوجوان نسل ذہنی خلفشار کا شکار کیوں ہے؟ یہ چیلنچ ہے اس سے نمٹنا چا ہیے؟۔۔امید واسق ہے کہ AKHSP علاقے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گا اور حلیمہ جیسی بیٹی دن رات جد و جہد کرے گی۔