پانچ دن کی ڈیوٹی اور اساتذہ کی دھائیاں/تحریر:محمد جاوید حیات
موسم کا ہر کہیں بڑا اثر ہوتا ہے جغرافیائی حالات سے کسی کو انکار نہیں۔۔صوبہ خیبر پختونخواہ کا علاقہ مختلف جغرافیائی حالات رکھتا ہے اس میں میدانی، پہاڑی، سرمائی،گرمائی، پہاڑی اور برفانی ہر قسم کے علاقے پائے جاتے ہیں ان کے موسمی حالات کا سب کو پتہ ہے اس لئے مختلف محکمے کے ملازم جب ان علاقوں میں ڈیوٹی پر ہوتے ہیں ان کو کچھ مراعات سے نوازا جاتا ہے اور ساتھ ان کو جلد ٹرانسفر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے مشکل علاقوں میں ڈیوٹی کی ہوتی ہے۔ان علاقوں کے جغرافیائی حالات جب سے یہاں انسانوں کی رہائش شروع ہوئی ہے ایسے ہی ہیں انسان ان سے لڑتا رہا ہے۔پرانے زمانے کی نسبت آج کل آسانیاں ہیں حالات قابل برداشت ہیں اگر کہیں قدرتی آفات کا سامنا ہوتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے حکومتی اقدامات ہوتے ہیں۔۔ہمارے یاں سکولوں میں بچوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے سکولوں میں اقدامات کئے جاتے ہیں گرمائی علاقوں میں گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ ہوتی ہیں اگر کہیں گرمی بچوں کی برداشت باہر ہو توچھٹیاں بڑھائی بھی جاتی ہیں اسی طرح سرمائی علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔بہت برف پڑ جائے طوفانی بارشیں ہوں سردی کی شدت ناقابل برداشت ہو تو حکومت فورا قدم اٹھاتی ہے۔2019 میں پوری دنیا میں آفت وبا کی صورت میں آئی ساری دنیا متاثر ہوئی وہاں پر ہمارے ہاں بھی بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی سکول بند رہے تعلیمی سال متاثر رہے رواں سال بھی تعلیمی سال تقریبا اگست میں شروع ہوا لیکن کتابوں کی عدم دستیابی اور بورڈ امتحانات میں نتائج کی تاخیر کی وجہ سے تعلیمی عمل تقریبا ستمبر کو شروع ہوا۔اب جب مارچ کو بورڈ امتحانات ہونگے تو بچوں کی پڑھائی نہایت متاثر رہے گی۔ اس سال موسمی حالات بہت اچھے ہیں اس وجہ سے عزت مآب سکریٹری تعلیم نے 23 دسمبر کی بجائے 31 دسمبر تک حاضری بڑھانے کو کہا تو اساتذہ کی دھائیاں آنے لگیں۔بس اگر سکول ایک دن بھی کھلے رہیں گے تو قیامت آجائے گی سارے بچے بیمار ہوجائیں گے اساتذہ مرکھپ جائیں گے۔بات ہمارے خلوص اور جان فشانی کی ہے ہم اساتذہ میں سے کوئی کیوں جولائی کی چھٹیوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتے کہ اس وقت ہمارے یاں بڑا مناسب موسم ہوتا ہے اور بچوں کی پڑھائی جاری رکھی جائے۔۔
اب جب حاضری چند دنوں کے لئے بڑھانے اعلان ہوا تو ہمیں چاہیے تھا کہ بڑے دبے لفظوں میں آرام سے اپنے آفس کے ذمہ داروں کو آگاہ کرتے کہ سردی بڑی ہے بچے پڑھائی نہیں کر سکتے ہیں۔سوشل میڈیا میں اتنی چیخ وپکار نہ کرتے بلکہ ہم خاموش رہتے بچوں کے والدین خود حکام بالا کو آگاہ کرتے کہ ان کے بچے اس ٹھٹھرتی سردی میں سکول نہیں جاسکتے۔ہم سے پہلے جن حالات میں ہمارے آبا و اجداد نے ان اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے اس سے ہم آگاہ ہیں لیکن افسوس ہم میں قربانی کا وہ جذبہ ختم ہوا ہے جو زندہ قوموں کے لئے ضروری ہے۔ میں جب سوشل میڈیا میں اساتذہ کے مضامین اور زبانی فریادیں سن رہا تھا تو اچھا نہیں لگتا تھا۔ہم سے زیادہ قوم کے بچے اہم ہیں ہم خاموش رہتے تو اچھا تھا۔تعلیم دینا اور تعلیم حاصل کرنا دونوں قربانی چاہتے ہیں ہمارے بھائی برف پوش پہاڑوں میں قوم کی خدمت کر رہے ہیں دفتروں میں سارا دن بیٹھے رہتے ہیں کام میں جھتے رہتے ہیں میں جب ٹیچر بنا تھا تو ہم آٹھ آٹھ پریڈ پڑھاتے آج تین پریڈ پڑھا رہا ہوں بیٹھا رہتا ہوں تنخواہ بہت زیادہ ہے اس نسبت سے مجھے جان کھپانی ہے۔ہم قوم کے ”محسن“ ہیں یہ ہم ہی بولتے ہیں چاہیے کہ قوم ہمیں ”محسن“کہے زمانا ہمیں ”محسن“ کے طور پر یاد رکھے ہمارے شاگرد ہمیں ”محسن“ کے طور پر یاد کریں تب ہمارا مقام بنے۔سیاست تک حرکت میں آگئی اب چھٹیاں ہوگئیں اگر ہم خاموش رہتے تب بھی چھٹیاں ہوتیں لیکن ہم نے اتنی فریادیں کیں کہ لوگ کہنے لگے کہ ”دنیا میں سب سے زیادہ سردی اساتذہ محسوس کرتے ہیں“ ہمارا کام ”نوکری“ نہیں ہے انسان سازی ہے قوم سازی ہے روح انسانی کی صنعت ہے اگر کوئی بندہ جذبہ قربانی سے پر نہ تو وہ اس کارواں میں شامل ہی نہ ہو جائے۔پرانے اساتذہ کی زندگیاں شاگردوں کے لئے وقف ہوتی تھیں وہ پیدل کئی میلوں کا سفر کرتے بھوک پاس الگ ستاتیں تب وہ معماراں قوم تھے ہمیں بھی اس جذبے سے سرشار ہوناچاہیے۔