زندگی کس طرح گزاری جائے/تحریر:محمد جاوید حیات

اشتہارات

آج نویں جماعت میں میری نئی کلاس لگی۔۔مضمون مطالعہ پاکستان کا تھا کلاس نئی تھی۔۔بچے تعزیما ًاٹھ کھڑے ہوئے میں نے بیٹھنے کو کہا۔۔تعارف ہوا۔کتاب پکڑا دی گئی باب بتا دی گئی دوسرا باب اب شروع کرنا ہے۔میں نے پہلا باب اٹھایا۔۔مختصرتاریخ۔۔۔یہ لو علامہ اقبال کی تصویر۔۔یہ سر سید احمد خان۔۔یہ جد و جہد آزادی۔۔یہ نظریہ پاکستان۔۔میں نے کہا بیٹا۔۔۔یہ نظریہ کیا چیز ہے۔چونکہ کتاب انگریزی میں ہے۔۔۔بڑا کرکے Idealogyلکھا ہے۔۔۔بچے آئیں، بائیں?شائیں کرنے لگے۔۔میں نے ایک سے پوچھا چلیں آئیڈیا (Idea)کسے کہتے ہیں؟ بات تھوڑی سی آسان لگی۔۔آئیڈیا سے آئیڈیالوجی تک آئے۔۔بچے مجھے تکنے لگے سراپا سوال بن گئے۔۔۔سر جی ہمیں اپنے اردگرد گردایسا کوئی نظریہ کوئی آئیڈیالوجی کوئی نصب العین نظر نہیں آتا۔۔کیا ہم اپنے آپ کو اپنے اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں، ہم تو ترقی کرنے نکلے تھے ہم تو انصاف کا پجاری بن کے نکلے تھے ہم تو دین کا لبادہ اوڑھے نکلے تھے ہم تو بد عنوانی کو لاتیں مارنے نکلے تھے۔ہم تو ایک دوسرے کا احترام کرنے نکلے تھے۔۔یہ کیا ہوا۔۔یہ تو سیاسی اکھاڑہ ہے۔۔یہ تو کرپشن کا گڑھ ہے یہ تو نفرت کا آڈیٹوریم ہے یہ تو سست رویہ کا سنیٹوریم ہے یہاں پہ قوم ہچکیاں لے رہی ہے۔۔یہ بھکاریوں کا جھتا ہے یہ قوم تھوڑی ہے۔۔سر آخر وہ نظریہ وہ عزم عالیشان۔۔وہ مرکز یقین۔۔وہ پاک سر زمین کا نظام۔۔۔سر پلیز ہمیں کچھ سمجھادیں۔۔میں نے بیٹا۔۔۔زندگی اگر ”گزاری“ جائے تو اس طرح ہوتا ہے۔۔زندگی اگر ”لڑی“ جائے تو اس طرح نہیں ہوتا۔۔ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ہم ”تن بہ تقدیر“ ہیں ہم لڑنے سے ڈرتے ہیں ہم جد و جہد سے نابلد ہیں۔۔۔ہمارے سامنے ہمارے ملک کے ساتھ دودو ہاتھ ہوتا ہے ہم خاموش ہیں ہمارے سامنے اس کو لوٹا جاتا ہے ہم خاموش ہیں ہمارے سامنے انصاف کا قتل ہوتا ہے ہم خاموش ہیں ہمارے سامنے ملک کی ساکھ داؤپہ لگایا جاتا ہے ہم خاموش ہیں۔۔ہمیں اللہ نے اپنی رحمتوں سے نوازا ہے ہم محسوس نہیں کرتے۔دنیا والے پانی کو ترس رہے ہیں ہمیں اللہ نے سمندر اور دریا دئے ہیں۔دنیا والے خوبصورت موسموں کی آرزو کرتے ہیں ہمیں اللہ نے خوبصورت موسموں کی دولت دی ہے۔ہمارے پاس معدنیات ہیں ہمارے پاس پہاڑ ہیں ہمارے پاس زرعی زمینیں ہیں ہمارے پاس درخت ہیں جنگلات ہیں ہمارے پاس پھول سبزیاں ہیں۔ہمارے پاس افرادی قوت ہے۔لیکن ہمارے پاس ہمت، طاقت، جذبہ اور صداقت نہیں۔۔ہمارے لایق فائق بیٹے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک بد عنوان آفیسر بن جاتے ہیں۔۔ہمارے کاروباری لوگ کارخانے لگانے کے بعد دو نمبر کی چیز بنا ڈالتے ہیں۔۔ہمارے دوا ساز زہر تیار کرتے ہیں ہمارے مسیحاؤں کو دولت کی تجوریاں بھرنے کی فکر ہے انسانی جانوں کی کوئی فکر نہیں ہمارے اساتذہ خام مال پیدا کرتے ہیں تعلیم یافتہ تربیت یافتہ اور سچی کھری قوم تیار کرنے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔۔
میرے بچو! یہ المیے ہیں ان سے مت ڈرو۔۔۔زندگی مت گزارو زندگی سے لڑو۔۔صداقت کے راستے کٹھن ہیں دیانت کی وادی پر خار ہے سچائی کی دھائی قربانی مانگتی ہے۔زندہ قومیں لڑتی ہیں۔۔ان کا وقت ضائع نہیں جاتا۔۔چند لاکھ افراد جو اسرائیلی قوم کہلاتی ہے روز دنیا کو نئی دریافت نئی ایجاد دے ڈالتی ہے۔۔چند کروڑ جاپانی دنیا کو مالا مال کرچکے ہیں انسانیت ان کا ممنون ہے۔۔کیا وہ زندگی گزارتے ہیں؟ نہیں وہ لڑتے ہیں۔وہ دن رات محنت کرتے ہیں وہ تھکتے نہیں ان کے پاس عیاشیوں کے لئے وقت نہیں ہوتا۔وہ وقت کو قیمتی بناتے ہیں ان کا ہر ہر فرد پوری قوم کے لئے زندہ ہے۔زندگی ان کی طرح گزاری جائے تووہ زندگی ہے۔۔ہم مردے ہیں مردوں کا نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے، نہ وژن ہوتی ہے نہ مشن ہوتا ہے نہ منزل ہوتی ہے۔۔میرے بچو زندگی سے لڑنا سیکھو۔۔بھوک، پیاس، غربت تمہیں شکست نہ دیں۔محنت اورصداقت میں کامیابی ہے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا