ایماندار آفیسر/تحریر: بشیر حسین آزاد

اشتہارات

آج کل معاشرہ اتنا بگڑا ہوا ہے کہ باکردار افراد خال خال ملتے ہیں اور خواب لگتے ہیں۔معاشرہ ایک ہجوم ہے جو جہاں پرہے اس کی شناخت نہیں اگر ہے بھی تو بہترین کردار اس کی شناخت نہیں۔دھندہ، بد عنوانی، بے ایمانی اس کی شناخت ہے اس کو ”چالاکی ” کا نام دیا جاتا ہے جو معاملات اور کردار کا کھرا ہے وہ یا تو ناکام ہے یا تنہا۔۔اس کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں ہوتا ہے اور پھر وہ اس ”ہجوم ”میں مقام کہاں ڈھونڈے۔۔انسانیت سے عاری اس معاشرے میں بعض کردار جو انسانوں کی شکل میں ہوتے ہیں موتی ہوتے ہیں اور موتی لگتے ہیں گلشن انسانیت میں وہ نسترن ہیں سفید گلاب جن کی خوشبو سے ماحول معطررہتا ہے۔انسانیت کا اگر کوئی نام باقی ہے تو ان کی وجہ سے۔آج میں ایک ایسے ”ہیرو“کا ذکر لے کے بیٹھاہوں جو واقعی ” خوابوں کا شہزادہ ” ہے۔ان کے کردار کی خوبصورتی اور مثالیت کہیں نہ ملے۔۔یہ سیفور خان صاحب ہیں جو ریونیو کے تحصیلدار ہیں وہ تین سال تک چترال میں تحصیلدار رہے۔۔میرے گھر میں ان کا قیام رہا میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا۔۔ہمارے معاشرے میں انتظامیہ اور انتظامیہ کے افیسروں کی اپنی دنیا ہوتی ہے ان کے پاس اختیار ہوتا ہے اور وہ اس اختیار کو استعمال کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔اب یہ ان پہ منحصر ہے کہ اس کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔اتظامیہ میں ”ریونیو“ ایسا ادارہ ہے کہ اس کا تعلق ہر قماش کے لوگوں سے ہوتا ہے خواہ وہ کاروباری ہوں ٹھیکہ دار ہوں یا عام بازار کے دکاندار وہ سبزی فروش ہوں قصاب ہوں یا چھاپڑی لگاتے ہوں اگر ریوینیو آفیسر اپنی ڈیوٹی سے مخلص اور کھرا سچا نہ ہو تو اس کے وارے نیارے ہوتے ہیں لیکن یہ ریوینو آفیسر کسی اور مٹی کے بنے ہوئے تھے۔سیفور خان نے نوکری محکمہ فیشری سے شروع کی اور بعد میں مرادن ڈی سی آفس میں رہے اور ترقی کرکے تحصیلدار بن گئے۔آپ مردان کے رہنے والے ہیں چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔۔بیٹیاں اعلی تعلیم یافتہ ہیں، دو ڈاکٹر اور ایک لکچرار ہے، بیٹے پڑھ رہے ہیں گھر میں دینی ماحول ہے اس دورانتشار میں مکمل دین ان کے گھر میں ہے۔دنیاداری واجبی سی باقی وقت میں گھر میں نماز روزہ اور قران پاک کی تلاوت کے علاوہ کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔گھر کا ماحول دیکھ کر قرون اولی یاد آتا ہے۔میں نے تحصیلدار صاحب کی ذات کومکمل شریعت کا پابند پایا۔۔۔دسترخوان میں ہر لقمے کے ساتھ بسم اللہ پڑھتا۔نماز تہجد تک قضا نہ ہوتی۔جھوٹ کا ایک حرف زبان پر نہ آتا۔اپنی ڈیوٹی سے بے مثال مخلص تھے۔بازار آتے تو دکاندار ڈرتے لیکن کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں سخت زبان استعمال نہیں کی۔آرام سے سمجھاتا تو کچھ برا کرنیوالے تڑپ کے رہ جاتے پھر ان سے غلطی کی گنجائش نہ ہوتی۔ان کی زبان، قلم اور ہاتھ سے سب محفوظ تھے۔۔ان کے کردار کی خوشبو سے سب معطر تھے۔اگر وہ کسی سبزی فروش میوہ فروش کے پاس کچھ خریدنے کھڑے ہوتے تو لرزہ بر آندام رہتے۔قیمت میں ہ?را پھیری کرنے کی کسی کو جرآت نہ ہوتی نہ مفت کی آفر کر سکتے جیسا کہ کلچر ہے۔ان کا قلم حق و انصاف کی تلوار تھی۔وہ ہمہ تن آخرت کی فکرمیں رہتے اللہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتا اور زندگی عافیت میں گزرتی۔انہوں نے کبھی اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔حکام بالا کبھی اس کے کھرے پن سے کڑھتے مگر اظہار نہ کر سکتے۔ان کی بے مثال ایمانداری ان کا ہتھیار تھا۔تحصیلدار صاحب اقبال کی زبان میں ”کم آمیز ” تھا تنہائی اس کے لئے نعمت سے کم نہ ہوتی۔انہوں نے کوشش کرکے دنیا کے دھندوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا تھا۔ان کی زبان حق وصداقت کا نمائندہ ہوتا انہوں نے ناحقی اور ناانصافی کو اپنی زندگی سے نکال دیا تھا اس اندھیر نگری میں وہ روشنی کا ایک منارہ تھا اور اس گٹھا ٹوپ اندھیریمیں ایک چراغ تھا۔تحصیلدار صاحب کا تبادلہ ہوا لیکن انہوں نے مہذب چترال کوبلند کردار کا ایک تخفہ دے دیا۔ایمانداری کی ایک سند چھوڑ گیا وہ ایک سنگ میل تھے اور سادگی و پرکاری کیسرخیل۔۔انہوں نے میرے گھر میں بلند کردار اور دینداری کی خوشبوبسائی۔ان کی صحبت میں میری زندگی میں اصلاح آ گئی وہ میرے لئے مسیحا کا کام کر گیا۔وہ جہان بھی رہے اللہ ان کو شاد و آ بادرکھے۔۔۔۔
مت سہل ہمیں جانو،پھرتا ہے فلک برسوں۔۔
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں