بلدیاتی الیکشن تحصیل کونسل چترال؛ ایک تجزیہ/محکم الدین ایوبی

اشتہارات

بلدیاتی الیکشن تحصیل کونسل چترال؛ ایک تجزیہ/محکم الدین ایوبی
ایک طرف ملک میں سیاسی انتشارجاری ہے تو دوسری طرف خیبر پختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی الیکشن کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ہر امیدوار کے حامی وپارٹی کے کارکن یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا پلہ بھاری ہے اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ بعض لوگ جو اپنے تجربے کی بنیاد پر سیاست پر عبور رکھنے اور ہر صورت نتائج اپنی پیشن گوئی کے مطابق آنے کا دعوی کرتے ہیں، کاکہنا ہے کہ تحصیل کونسل چترال کے امیدواروں میں مقابلہ پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی ن لیگ اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین ہی ہو گا اور استدلال یہ پیش کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شہزادہ امان الرحمن چونکہ چترال شہر کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر لٹکوہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے لٹکوہ کے عوام اپنی سابقہ سیاسی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ شہزادہ امان الرحمن کو لٹکوہ کا بیٹا قرار دے کر اپنا ووٹ ان کے حق میں استعمال کریں گے کیونکہ لٹکوہ سے تعلق رکھنے والا کوئی اور مضبوط امیدوار ان کے مقابلے میں میدان میں نہیں ہے۔ لٹکوہ کا سیاسی پس منظر اس حوالے سے ہمیشہ منفرد اور اتحادو اتفاق پر مبنی رہا ہے۔ ظفر احمدمرحوم ہو کہ سلیم خان یا سلطان شاہ لٹکوہ کے لوگوں نے الیکشن میں علاقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں کامیاب کیا اور لٹکوہ کئی عرصے تک صوبائی اور ضلعی سطح پر چترال کی سیاست پر چھایا رہا۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ علا قائی ووٹ بالاتفاق شہزادہ امان الرحمن کو پڑیں گے۔ چترال شہر میں رشتے اور پارٹی کے ووٹ اس کے علاوہ ہیں۔یوں ان کی ایک مضبوط پوزیشن موجود ہے لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن پر ملکی حالات کے اثرانداز ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ اگر موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو بلدیاتی الیکشن کا منظر نامہ بالکل بدل سکتا ہے۔
اس طرح اگر ہم جے یو آئی مسلم لیگ ن کے متفقہ امیدوار مولانا عبدالرحمن کی بات کریں تو ان کے حامی اس بنیاد پر کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں کہ علاقہ کوہ میں ووٹوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور مولاناعبدالرحمن کوہ کا بیٹا ہے۔ مسلم لیگ ن اور ان کی جماعت کے اتحاد کا فائدہ ان کو ابتداء میں ہی پہنچ چکا ہے۔ وہ اس طرح کہ معروف قانون دان اور سیاسی شخصیت عبدالولی خان ایڈوکیٹ جو پچھلے الیکشن میں بطور حریف ان کا مقابلہ کیا تھا، اب اس کے حلیف بن کر ان کاانتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ مولانا عبدالرحمن کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ چترال کے طول وعرض میں مدارس کا جال بچھ چکا ہے اور ان مدارس کا تعلق براہ راست جمعیت کے ساتھ ہے۔ ان مدارس میں پڑھنے والے طلباء و طالبات الیکشن میں ووٹ جمعیت کے حق میں استعمال کرنے کیلئے والدین کو مجبور کرتے ہیں۔ یوں یہ انڈور الیکشن کمپین بن جاتی ہے اور مذہبی طور پر حساس لوگ اس قسم کے مذہبی امیدواروں کے خلاف ووٹ دینے کو کُفر سمجھتے ہیں۔ ایسے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی جڑیں عوام میں بہت مضبوط ہیں۔ اگر حکمت عملی سے اس کارڈ کو استعمال کیا گیا تو حالات کا رُخ بدلہ جا سکتا ہے۔ اس کے باوجوداس بات سے انکار ممکن نہیں، کہ مرکزی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی چپقلش خصوصاً عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کے اثرات بلدیاتی الیکشن پر حاوی ہوں گے۔ اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر محاذ اآرائی نے سنگین صورت اختیار کر لی تو الیکشن شیڈول بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جڑیں بھی عوام میں بہت گہری ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی چترال کے موجودہ صدر انجینئر فضل ربی جان کا پارٹی کیلئے ایک اچھا کردار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کیلئے نہ صرف سابق صوبائی وزیر سلیم خان اور سابق ایم پی اے سید سردار حسین کو میدان میں اتارا ہے بلکہ ایک مضبوط اتفاق و اتحاد بھی پارٹی کے اندر دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس سے نہ صرف پیپلز پارٹی کے سنیئر لوگ انتخابی امیدواروں کی کامیابی کیلئے بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں بلکہ نوجوانوں میں بھی ایک جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چترال بھر میں ووٹ بکھرے ہوئے ہیں جن میں بعض علاقے اس پارٹی کے گڑھ قرار دیے جاتے ہیں جن میں لٹکوہ کا علاقہ سر فہرست ہے۔ اس الیکشن میں بات مڑ کر پھر اُسی نکتے پر آ کر رکتی ہے کہ آیا لٹکوہ سے ووٹ کا ایک ذخیرہ سلیم خان کے دور کی طرح پیپلز پارٹی کے امیدوار قاضی فیصل سعید کو پڑے گا؟ اگر ایسا ہوا، تو یقینی طور پر پیپلز پارٹی اچھی پوزیشن میں ہو گی ورنہ کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن جس طریقے اور حکمت عملی کے تحت اتفاق و اتحادکا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم جاری ہے اس سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی کو ایک منظم اور فعال جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دوسری پارٹیوں کے لوگ کسی خاص وقت میں میدان میں نظر آتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی واحد پارٹی ہے جو دن رات خدمت اور سیاست میں مصروف عمل ہے۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں اس کو مشکل یہ پڑی ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کا انتخابی اتحاد نہ ہو سکا۔ اس کا ا لزام دونوں جماعتوں کے قائدین مسلسل ایک دوسرے پر لگاتے آرہے ہیں، جبکہ وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ انتخابی اتحاد کیلئے جو فارمولہ پیش کیا گیا تھا اس پر اتفاق نہ ہو سکا۔ لیکن بعض حوالوں سے یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی لحاظ سے ملکی سطح پر ایک غیر متعلق جماعت بن چکی ہے۔ کسی کی حمایت اور مخالفت سے دور ہے، جبکہ ن لیگ اور جمعیت کے قائدین ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کرحکومت کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اس لئے اس فطری اتحاد کو چھوڑ کر غیر فطری اتحاد کی بلا کیا ضرورت ہے۔ یوں چترال میں جماعت اسلامی اور جمعیت کے راستے جدا ہو گئے ہیں، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اتحاد نہ ہونے کا نقصان گو کہ دونوں جماعتوں کو پہنچ چکا ہے تاہم جماعت اسلامی کا نقصان زیادہ ہے۔
بلدیاتی الیکشن کے آغاز میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سنیٹر مشتاق احمد کے دورہ چترال کے موقع پر انہوں نے سابق ضلع ناظم مغفرت شاہ، جماعت اسلامی کے امیر اخونزادہ رحمت اللہ اور دو دیگر ذمہ داروں کو تحصیل کونسل کی سیٹ کے اچھے نتائج کا ٹاسک دیا تھا۔ اس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ہم اختلافات بھلا کر الیکشن کمپین چلائیں گے لیکن سابق ضلع ناظم مغفرت شاہ تحصیل کونسل چترال کے امیدوار وجیہ الدین کے لئے کمپین کی بجائے دروش تحصیل میں جمعیت کے منحرف امیدوار شیر محمد کے الیکشن مہم میں سرگرم رہے۔ جس پر بعض لوگ یہ رائی زنی کر رہے ہیں کہ سابق ضلع ناظم تحصیل کونسل دروش کے امیدوار شیر محمد کو سپورٹ کرکے جمعیت اور پیپلز پارٹی کے شہزادہ خالد پرویزسے سیاسی انتقام لے رہے ہیں۔ اس اسٹریٹیجی سے جماعت اسلامی کو کتنا فائدہ پہنچا یہ تو سابق ضلع ناظم ہی بتا سکتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ جمعیت العلما ء اسلام اور جماعت اسلامی حالیہ الیکشن کے بعد ہی اپنے قد کاٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا اتحاد ہونا کتنا صحیح تھا اور نہ ہونا کتنا غلط ہے۔
بہر حا ل الیکشن کا معرکہ دن بدن تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور وفاق میں عدم اعتماد کا دنگل بھی جاری ہے جس کا اثر بلدیاتی الیکشن پر پڑنے کے واضح امکانات ہیں اس لئے کسی جماعت یا امیدوار کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں پیشگوئی بہت قبل از وقت ہے۔