بلدیات اور بلدیاتی انتخابات/تحریر:محمد جاوید حیات

اشتہارات

ہمارے ملک میں سارا کچھ بچوں کا کھیل ہے۔۔نام کے سسٹم موجود ہیں جب کام کی باری آجائے تو سارے فیل ہیں۔۔ایوب خان کے دور میں بی ڈی کا تصور دیا گیا۔۔بنیادی جمہوریت کا مقصد ہی یہ تھا کہ جمہوری نظام بہت نیچے عوام تک لایا جائے۔گلی کوچوں میں عوام کے نمائندے ہوں وہ ان کی آواز، ان کے مسائل اور ان کے حقوق کی دھائی حکمرانوں تک پہچائیں۔یہ بہت کامیاب کوشش تھی لیکن یہاں پر بھی وہی نتیجہ رہا کہ عمل پر آکے آکے سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔۔عوام اسی طرح بے آواز رہے۔ان کے مسائل وہیں ٹکے رہے۔ بلدیا ت کے نمائندے اسی دھندے کے شکار ہوگئے،مفادات ان کو لے اڑے۔اسٹبلشمنٹ نے ان کو جھکڑ لیا اور تا حال یہ نظام بھی کار کردگی کے لحاظ سے زیرو رہا۔۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بلدیہ ایک بہت کامیاب سسٹم ہے اور عوام کی خدمت ملک کی ترقی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا فعال ادارہ ہے۔اسی ادارے میں حکمرانی اور جمہوریت کی جڑیں ہوتی ہیں۔ملک میں بلدیہ کی گاڑی جب روڈ پر ہوتی ہے تو ایمبولنس کی طرح اس کے لیے روڈ خالی کیا جاتا ہے سب سمجھتے ہیں کہ شہر میں کہیں ناکہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہے۔بجلی کی ترسیل رک گئی ہوگی۔پانی کی پائپ پھٹ گئی ہوگی۔ٹیلی فون بند ہوچکا ہوگا۔کسی حادثے کی اطلاع ہوگی۔عوام کے انتہائی بنیادی مسئلہ یہی بلدیہ حل کرتا ہے۔اس کے دفتر میں ہر گھڑی فون تیار و ہوشیار رہتا ہے انفرادی طور پر کال ہوتی ہے کہ فلان محلے میں گھرانہ نمبر فلانہ میں یہ مسئلہ درپیش ہے۔شہر کی صفائی ستھرائی گلی کوچوں،بازاروں پارکوں اور ساتھ گلیوں سے روزانہ کی بنیاد پر کوڑا اٹھانا اسی بلدیے کا فرض ہوتا ہے۔اس کے پاس فنڈ ہوتا ہے مشینیں ہوتی ہیں مزدور ہوتے ہیں۔اہلکار ہوتے ہیں ٹیکنیشن ہوتے ہیں۔عوام کی زندگی کا ان پر انحصار ہے اس وجہ سے اسی بلدیے کے لیے عوام اپنا کارکن کارگزار اور محنت سے سرشار نمائندہ چنتا ہے تاکہ اس کو بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ہمارے ہاں بلدیے کی کارکردگی ایسی ویسی نہیں ہے۔۔کبھی اس کو انتظامیہ کے ماتحت کرکے ٹریب میں بند کیا جاتا ہے کبھی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کرکے دوراہا ڈیزائن کیا جاتا ہے عوام اور نمائندے دھوبی کا کتا بن جاتے ہیں۔عوام بہرہ مند نہیں ہوتے۔اس لیے جب بھی بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتا ہے عوام انگشت بدندان ہوتے ہیں۔۔۔یہ شعر زیر لب دھراتے ہیں
ان کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے۔۔۔۔
یعنی جس نے بھی بلدیہ نام رکھا ہے۔
بات یوں بھی ٹیڑی میڑی نہیں۔ کچھ شہروں کے ایسے میئر گزرے ہیں جو ان شہروں کو روشنیوں کا شہر بنا کے چھوڑے ہیں۔کچھ ایسے گزرے ہیں جو خود فلیٹوں میں رہے اور اپنی نیندیں عوام کے آرام پہ تج دیں۔لیکن نظام کی کمزوریاں اور نمائندوں کی بے حسیاں اور دھندے اس نظام کو ناکارہ کرتے رہے ہیں۔اب بھی الیکشن کا عمل جاری ہے تو وہی کارستانیاں ہیں۔یہ الیکشن پارٹیوں سے بالاتر ہونی چاہیں صرف خدمت مطمع نظر ہو۔اور نمائندے بھی ایسے چنے جائیں تو خدمت سے سرشار ہوں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔۔یہ دنیا کے ان ممالک میں شمار نہیں۔ جس میں سیاست خدمت کا نام ہوتا ہے نمائندہ خادم کہلاتا ہے۔اب یہاں عوام میں بھی وہ شعور نہیں کہ وہ ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ جو خدمت کرکے دکھائیں۔۔پھر انتظامیہ کا بھی پتہ نہیں کہ ان کو کس نہ نہج نچاتا ہے۔

نوٹ: ادارے کا کالم نویس، مضمون نگار کی رائے اور خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں، کسی بھی مضمون یا مراسلے کے مندرجات مضمون نویس یا مراسلہ نگار کی رائے یا خیالات تصور کئے جائیں۔