گلگت شندرو روڈ پروجیکٹ: خدشات و امیدیں /تحریر: جان نظاری

اشتہارات


آپ نے وہ کہانی تو سنی ہو گی کہ ایک آدمی کے پاس ایک مرغی تھی، جو بڑی خاص تھی۔ یہ مرغی انڈے تو دیتی تھی مگر وہ سونے کے ہوتے تھے۔ وہ ہر روز سونے کا انڈا دیتی تھی۔ ایک دن مرغی کے مالک کو لالچ نے آن گھیرا۔ اس بدبخت نے سوچا کہ اس طرح امیر بننے میں بہت دیر لگے گی، کیوں نہ مرغی کو ذبح کر کے ایک بار ہی سارے انڈے نکال لے۔ اس طرح وہ ایک دن میں ہی دولت مند بن جائے گا۔ اس نے بڑے جوش و خروش سے مرغی کو ذبح کیا مگر اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس نے اپنی مرغی بھی گنوائی اور انڈے بھی گئے۔ بالکل ویسا ہی گلگت شندور روڈ پروجیکٹ کی کہانی ہے، وہاں کے باسی بھی صرف اس پروجیکٹ کی معاوضے کے بل بوتے امیر بننا چاہتے ہیں، مرغی پالنے کو تیار نہیں۔ اس پروجیکٹ کو جہاں کچھ افراد گیم چینجرکے خطاب سے نواز چکے ہیں وہیں پہ کچھ افراد اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہیں۔ میں اسے گیم چینجر نہیں بلکہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھتا ہوں۔ اس لئے ہمیں مرغی کے مالک کی غلطی سے سبق سیکھ کے اپنی مرغی کو ذبح کرکے انڈے نہیں نکالنا چاہئے، بلکہ دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پیار محبت سے پال کے انڈے کھانا ہے نہ کہ مرغی۔ اس وقت گلگت سے لے کر برست تک علاقہ مکینوں میں یہ سب سے زیادہ زیر لب موضوع سمجھا جاتا ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں، جن کا خاطر خواہ زمینیں اس روڈ کی زد میں آرہیں ہیں، وہ بھی شامل ہیں جو اس روڈ کی وجہ سے کم و بیش بے گھر ہو رہے ہیں، وہ خوش نصیب افراد بھی شامل ہیں جن کے زمینوں کی قیمتیں اس روڈ کی آمد سے راتوں رات آسمان کو چھونے لگی ہیں اور وہ دور اندیش کاروباری طبقہ بھی شامل ہیں، جو اس پروجیکٹ کی خبر شائع ہونے کے اگلے دن سے علاقے میں مختلف کاروباری موقعوں کی کھوج میں دن رات ایک کر رہیں ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر وہاں کے باسیوں کے پاس بیٹھ کے اس موضوع پے لب کشائی کی جائے تو ہر فرد اپنے انداز، اپنی ماضی کے تجربات و واقعات کو بنیاد بناکر اس موضوع پے لمبے چوڑے تبصرے کررہا ہوتا ہے۔
عام طور پے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے تین مختلف اقسام کے لوگ آپ کو مل جائیں گے۔ ایک وہ جو تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، جنھیں عام طور پر پیداواری اور مثبت سوچ رکھنے والے کہا جاتا ہے۔ وہ یقینا اس پروجیکٹ کو لے کے کافی پرامید اور خوش دیکھائی دیتے ہیں کیوں کہ وہ اس پروجیکٹ کے مثبت پہلوؤں کو بخوبی جانتے ہیں۔ یقینا علاقے میں جب بھی بڑے پیمانے پے کوئی تبدیلی آجاتی ہے، تو وہ مثبت اور منفی دونوں پہلو ساتھ لے آتی ہے۔ لہذا یہ فطری عمل ہے کہ تعمیری سوچ رکھنے والے لوگ ہمیشہ اچھائی کی باتیں کرتے ہیں، اچھائی کو فروغ دیتے ہیں۔ لوگوں کو ہر وقت وہ تمام فوائد بتانے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اس پراجیکٹ سے وابستہ ہیں، دوسرے وہ عناصر ہیں جو منفی ذہنیت رکھتے ہیں، جنہیں تخریب کار کہا جائے بھی تو شاید غلط نہ ہو۔ یہ لوگ عادت کے ہاتھوں مجبور مثبت پہلوؤں کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انھیں ہمیشہ چیزوں میں بگاڑ نظر آتی ہیں۔ یہ ہر اچھے برے کام کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو عام زبان میں کنویں کا مینڈک بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی زندگی کا ایک ہی فارمولا ہے، وہ یہ کہ اچھا کام نہ خود کرنا ہے اور نہ کسی کو کرنے دینا ہے۔ یہ اکثر وہ لوگ ہوں گے، جو یا تو اس روڈ کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، اس لئے وہ منفی پروپیگنڈہ پھیلا کے اس تقدیر بدلنے والی پروجیکٹ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہیں ہیں یا تو یہ وہ لوگ ہوں گے، جو خود تو اس مثالی منصوبے کی تکمیل کے باوجود بھی اپنے حالات بدلتے نہیں دیکھ پاتے، تو پھر دوسروں کی تقدیر بھی بدلتے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کے پاس تخریب کاری، منفی پروپیگنڈہ پھیلانے، ان لوگوں کی ذہنیت کو خراب کرنے کیجو عملی طور پے اس منصوبے میں خلل ڈال سکتے ہیں اور کچھ نہیں بچتا۔ اس وقت جس مقام پہ ہم کھڑے ہیں، یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان عناصر کو پہچانیں اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام کر جائے اور ایک دفعہ پھر ترقی یافتہ قوم بن کے ابھر آنے کا یہ سنہری موقع ہمارے گھروں کی دہلیز سے واپس چلی جائے۔ ان لوگوں کی عموما پہچان یہ ہے کہ یہ ناکام اور زندگی سے ہارے ہوئے مخلوق ہوتے ہیں۔ ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ، یہ دنیا ویسا نہیں ہے جیسا ہمیں نظر آتی ہے، بلکہ یہ دنیا ویسا ہے جیسا ہم خود ہیں۔ ماہرین کی اس رائے کا ذکر یہاں اس لئے ضروری ہے تاکہ ہم ان دونوں مخلوقات کے درمیان فرق سمجھ سکیں۔ ان دو عناصر کیساتھ ساتھ یہاں پے اس بات کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے کہ چونکہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود کی اہمیت سے دنیا کا ہر وہ شخص جو جغرافیائی حکمت عملی کا سمجھ بوجھ رکھتا ہو انکار نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے میں یہ افراد بین الاقوامی طاقتوں کا آلہ کار بن کے بھی اسطرح کی سازشیں رچا سکتے ہیں کیوں کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود میں ایسے منصوبے خاص کر امریکہ اور ہماری روایتی حریف انڈیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ہمیں یہ سب کچھ اچھی طرح سے دیکھنے اور جانچنے کے بعد ہی اپنے اعتراضات پہ غور کرنا چاہیے۔ اور تیسری قسم یہاں سیاسی ٹولے کا پایا جاتا ہے جو کہ اس گیم چینجر پروجیکٹ کی کامیابی کے راہ میں سب سے موثر رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے مقاصد ان کی ذات کی حد تک محدود ہیں لیکن وہ نابالغ عوام کو اپنی خوشامدی باتوں اور سیاسی چال سے ورغلانے کی بھرپور انداز میں کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر یہ روڈ کامیاب ہو جائے تو اگلے الیکشن کے لئے نذیر ایڈوکیٹ کا پوزیشن اور زیادہ مضبوط ہوسکتاہے جو کہ ان کے سیاسی حریفوں کے لئے کسی بھی قیمت قابل قبول نہیں۔
ہمارے لوگوں کے دو ٹوک الفاظ میں یہ چیدہ چیدہ مطالبات ہیں، جن میں سر فہرست گورنمنٹ آف پاکستان اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے مطالبہ ہے کہ، آبادی والے ایریا میں 50 فٹ سے زیادہ زمین نا لیا جائے، دوسرا مطالبہ روڈ کی زد میں آنی والی آبادی اور زمین کا تخمینہ مناسب ہو تاکہ وہ افراد جو روڈ کی وجہ سے مکمل بے گھر ہو رہے ہیں، اس معاوضے سے کہیں اور جاکے آباد ہو سکیں اور تیسرا مطالبہ معاوضے کی رقم بر وقت متاثرین کو ادا کی جائے۔ یہ سارے مطالبات جائز اور قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان مطالبات کو منوانے کا حل احتجاج میں ہر گز نہیں۔ بہت ہی آسان طریقہ ہے جو کہ 27 دسمبر کی دوپہر گوپس میں ایک عوامی میٹنگ منعقد ہوئی وہاں طے پاچکا ہے، اگر پھر بھی لوکل ایڈمنسٹریشن موثر انداز میں کام کرتے نہیں دکھائی دے رہی، تو چند منتخب نمائندے کمیٹی کی شکل میں اسلام آباد نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مرکزی دفتر جا سکتے ہیں، جہاں پہ ان کے تمام سوالات کے جوابات بھی مل جائیں گے اور جائز مطالبات سنی بھی جائیں گی۔ اب وہ زمانہ چلا گیا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے مطالبے کے لئے سیاسی نمائندوں کی پناہ لی جائے۔ ایک سیاسی نمائندہ ووٹ لے کے خود جیت نہیں پاتا، تو وہ ہمیں ہمارا حقوق کہاں سے دلا سکتا ہے۔۔؟
یہاں پہ یہ بات بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس روڈ کا فائدہ ہمیں معاوضے کی شکل میں نہیں ہونا ہے، یہ تو ابھی آغاز ہے۔ اس کا فائدہ روڈ بننے کے بعد ہمیں موصول ہونا شروع ہوگا۔ وہ متوقع فوائد یہاں پے گننے لگا تو شاید یہ کالم بہت طویل ہوگا،اس پر بھی لکھیں گے لیکن پھر کبھی۔ اب 216 کلومیٹر کے احاطے میں win win حالات پیدا کرنا نہ گورنمنٹ کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی این ایچ اے کی بس کی بات ہے۔ یہ کوئی سٹریٹ روڈ نہیں ہے، جس کی کوئی متفقہ پیمائش نہیں ہوگی۔ یہ ایک ہائی وے روڈ ہے اور اس کی اپنی ایس او پیز ہوتی ہیں اور سب کچھ اس ایس او پیز کے مطابق بننا ہے۔ لہٰذا علاقہ مکینوں کو قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے اور جن جن کے جائز مطالبات ہیں، وہ بجائے روڈ پر نکل کر تقاریر کرنے کے مناسب چینلز کے ذریعے متعلقہ اداروں تک اپنی بات پہنچائیں جو کہ گوپس والی عوامی میٹنگ میں متفقہ طور پر طے پایا ہے، ان نکات پے سختی سے عمل کیاجائے تاکہ بروقت روڈ سے متعلقہ اعتراضات کا ازالہ ہو سکے اور یہ گیم چینجر پروجیکٹ بغیر کسی سازش کا شکار ہوئے اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہو، جو کہ ہر اس فرد کی خواہش ہونی چاہیے جو اس علاقے کیساتھ مخلص ہے اور یہاں کے باسیوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہو۔
یہاں پے اس بات کا ذکر بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، جو متوقع روڈ کی موجودہ پیمائش لی گئی ہے، وہاں کہیں پے بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ہائی وے ایس او پیز نظر نہیں آتیں اور کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے، نشان لگانے والے افراد کا سرویئر یا سول انجینئر والے پیشے سے کوئی دور دور کا تعلق ہی نہیں ہے۔ ایسے میں لوگوں کا غم و غصہ جائز ہے، جسے مقامی روڈ کمیٹی کے نمائندے لوکل ایڈمنسٹریشن یا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے نوٹس میں لے آئیں تاکہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جا سکے۔ بالخصوص میں اگر یہاں پے یانگل سے آگے کی بات کروں تو خاص یانگل، روشن، ہاکس، ہمرداس، گمیس، داہمل، سوسٹ، پنگل اور خاص پھنڈر کے درمیان سے 50 فٹ روڈ بننی چاہئے جو کہ اگر ہم نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ہائے ویز پے کام کرنے کا ایس او پیز بھی پڑھے تو وہاں سے بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ آبادی والے جگہوں پے 50 فٹ جبکہ غیر آبادی والے جگہوں پے 100 فٹ روڈ بننی چاہئے۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر نیشنل ہائی وے اتھارٹی والے اپنے پروفیشنل انجینئرز اور سرویئر کی مدد سے یہ پیمائش عین اپنی ہائی ویز ایس او پیز کیمطابق کرے تو نہ کوئی اعتراض کر سکتا ہے اور نہ اعتراض کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس منصوبے کو سازشی عناصر کے شر سے بچائے اور ہم سب کو ہم آواز ہوکے دل و جان سے اس سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بہترین اور صحت مند انداز میں پالنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائیں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مزے مزے سے اس کی انڈے کھا سکیں۔ آمین
نوٹ: ادارے کا کالم نگار یا مضمون نویس کی رائے سے متفق ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی کالم، مضمون یا مراسلے کے مندرجات متعلقہ کالم نگار یا مضمون نویس کی اپنے خیالات یا رائے تصور کئے جائیں (ادارہ)