کیا اس محفل میں بھی ہماری باتیں ہوتی ہیں؟/تحریر:محمد جاوید حیات

اشتہارات

کیا اے سی لگے کمرے میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ لوگوں میں ہماری مجبوریوں کا ذکرہوتا ہے۔۔کیا ان بنگلوں،حویلیوں،کوٹھیوں کے اندر ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جس میں ہمارا ذکر ہو۔لفظ غریب کا تذکرہ ہو۔بھوک،پیاس،فاقہ،بے روزگاری،قرض،بیماری،فیس،کرایہ وغیرہ موضوع بحث ہوں۔ کیا وہاں خالص محبت،خلوص،خدمت،جذبہ خدمت،احترام،ایثار،قربانی،اجتماعی مفادات پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔کیا وہاں پر ریاست میں غریبوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر ہوتا ہے۔نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پہ درد د ل نہیں ہوتا۔وہاں پر کسی کٹیا اور جھونپڑی کا تصور نہیں۔وہاں ننگے فرش پہ سونے کا تصور نہیں۔ وہاں پہ کپڑوں کے چیتھڑوں کا حال کسی نے نہیں دیکھا۔۔وہاں پرآرزوؤں کی موت کسی نے نہیں دیکھی۔۔آرمانوں کا قتل کبھی نہیں ہوا۔۔افلاس کا عذاب کسی پہ نہیں گذرا۔عید کسی کے گھر میں افسردہ نہیں آئی۔کسی کے بچے ایک لقمے کے لیے نہیں لپکے۔کسی کا چولہا کبھی بجھا نہیں۔کسی کی بیٹی رشتے کے انتظار میں گھر بیٹھی نہیں ہے۔وہ تو خس خانہ برفآب سے اُٹھ کے اے سی کمرے میں آرام دہ کرسیوں (صوفوں)پہ بیٹھے ہوئے ہیں۔۔ان کی جیب میں خالی چیک بھی ہے۔اے ٹی ایم کارڈ بھی ہے۔مختلف بنکوں میں اکاونٹ بھی ہیں۔ٹھیکے بھی چل رہے ہیں۔۔کارخانے بھی لگے ہیں۔دکانوں اور مکانات کے کرائے بھی لگے ہیں۔ نئی گاڑی بھی زیر استعمال ہے۔وہاں پہ ہمارا ذکرکیا ہوگا۔وہ اس دنیا سے بے خبر ہیں۔یمن کے بادشاہ کا وزیر امیر المومنیں حضرت عمرفاروق ؓ سے ملنے آیا۔۔مدینہ پہنچا لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے شہنشاہ کا محل کدھر ہے۔لوگوں نے کہا کہ ادھر مسجد نبوی ؐمیں۔۔وہاں پہنچتا ہے۔۔دیکھتا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی کپڑوں پہ جابجا پیوند لگے ہیں۔گرم ریت پہ سرہانے دو اینٹ رکھے سوئے ہوئے ہیں۔گرمی سے پسینہ۔۔پسینہ داڑھی کے بالوں سے ٹپکتا ہے۔نیچے ریت پہ قطروں کے ٹپکنے کے نشان ہیں۔وزیر حیران تھے۔۔ساری دنیا پہ ان کادھاک بیٹھ گیا ہے۔۔ان کے نام لینے سے لوگ لرزہ بر آندام ہوتے ہیں۔۔ چوبیس لاکھ ایکڑ مربع زمین پہ ان کی حکو مت ہے۔۔یہ ہیں شہنشاہ معظم؟ یہ تو نرے فقیر ہیں۔۔فاروق اعظم ؓ جاگ اٹھتے ہیں۔مہمان کی طرف نگاہ کرتے ہیں۔۔تو وہ ان نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ان کا رعب وزیر موصوف کو لرزہ بر آندام کر دیتا ہے۔ان کی محفل میں ہماری بات ہوگی یارو۔۔جو خود روکھی سوکھی کھاتا ہو۔۔جو رعایا کے غم میں گھلتے گھلتے پتلاہو جائے۔جو دریا کے کنارے ایک بھوکے کتے کی فکر کرے۔جو شہر کی چاپیاں لینے جاتے ہوئے خود پیدل چلے۔۔جن کے کپڑوں کی پیوندوں کو دشمن گنتے رہے۔ہماری باتیں ان محافل میں ہوتی ہیں۔۔کسی بادشاہ کی محفل میں کیا ہو رہی ہوں۔جس کے گھوڑے مربے کھا رہے ہوں۔ ۔جس کے مور کو بلی کاٹنے سے غضب آجائے۔جس کے بنک بلنس باہر ملک میں ہوں۔جس کو اوگرا میں تیل کی قیمت کی کیا فکر ہو۔۔اس کی گاڑی کبھی بھی ایندھن نہ ہو نے سے کھڑی نہیں رہے گی۔بجلی نہ ہونے سے اس پہ کیا فرق پڑے گا۔۔وہ تو جنرئٹر لگا کے یو پی ایس لگا کے بیٹھا رہے گا۔ٹماٹر کی قیمت بڑھنے سے اس کا کیا۔اس کے سالن کبھی بے غیر ٹماٹر کے نہیں ہو گا۔فلاحی حکمران کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی حالت کو رعایا کی حالت پہ ڈال دے۔۔ رب کے حضور گڑا گڑا کے فریاد کرے کہ اس کے ذمے جو بوجھ ہے۔۔وہ اس کو اُٹھا سکے۔۔اللہ اس کی مدد کرے گا۔۔اس کو غریبوں کی فکر ہو تو اس کے ساتھ مدد ہو تی ہے۔اگر ان کی محفلوں میں مجبوروں، غریبوں کا ذکر ہوتب وہ سہی معنی میں حکمران ہے۔یہ درد اس کی صفت ہے اس کا معیار ہے۔اس کی صلاحیت ہے۔یہی صفت رعایا کے دلوں پہ اس کی حکومت کراتی ہے۔اس کے احترام،اس کی محبت، اس کا رعب رعایا کے دلوں میں بیٹھا تی ہے۔ وہ زمین میں اللہ کے سائے میں ہوتا ہے۔چاہیے ہم تو اپنی محفلوں میں ان کا ذکرا دب سے کریں۔ان کا احترام ہم پہ لازم ہے۔۔یہ ہمیں ہماری اوقات بتا تا ہے۔آج کل سوشل میڈیا میں جو طوفان بد تمیزی ہے وہ کسی مہذب قوم کی روش نہیں ہو سکتی۔کسی کو برُا بھلاکہنے سے اس بندے پہ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا البتہ برُا بھلا کہنے والے کا تعارف ہو جائے گا کہ اس کا اخلاق کیسا ہے۔۔