ایک ہزار سے زائد افراد لوئر چترال کے قرنطینہ مراکز میں موجود ہیں،دیگر شہروں سے چترالی باشندوں کے آنے کا سلسلہ جاری

اشتہارات

چترال(محکم الدین)ضلعی انتظامیہ چترال لوئر کی طرف سے کوونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ملک دوسرے شہروں سے آنے والے چترالی باشندوں کی حوصلہ شکنی کے باوجود لوگوں کی آمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ایک کو چترال پہنچنے کی صورت میں ہر حالت میں چودہ دن قرنطینہ میں گزارنے پڑیں گے اور اسکے بعد ہی انہیں اپنے گھروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔ انتظا میہ کو اس وجہ سے بھی مشکلات درپیش ہیں کہ کسی وجہ سے انتظامیہ کی نظر سے اوجھل ہو کر کوئی بندہ بغیر قرنطینہ کے گاؤں پہنچ جاتا ہے تو اُس کی خبر مقامی لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہے جو انتظامیہ کیلئے سُبکی کا باعث بنتا ہے۔ اس بنا پر انتظامیہ دانستہ طور پر کسی کو بھی رعایت دینے کے حق میں نہیں ہے جس کو عوامی حلقوں نے سراہا ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے اور روزگار بند ہونے کے نتیجے میں واپس گھروں کو آنے والے مسافروں کو چترال پہنچنے میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں وہ بیان کے قابل نہیں ہیں۔ ایک طرف اُن کا روزگار چھوٹ گیا ہے اور دوسری طرف گاڑی مالکان جو ناجائز کرایہ طلب کرتے ہیں، مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق انہیں یہ رقم ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو چکی ہے اور ان لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لئے ڈرائیور موقع سے فائدہ اُٹھا کر مرضی کی رقم وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد سے چترال فی سواری چھ سے آٹھ ہزار روپے وصول کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی ان مسافروں کوچترال پہنچ کر چودہ دن قرنطینہ میں گزارنے پڑتے ہیں۔ چترال لوئر ا نتظامیہ کی طرف سے قرنطینہ قرار دیے جانے والے ہوٹلز، ہاسٹلز اور گیسٹ ہاؤسز پر مشتمل 60سنٹرز میں ایسے افراد کی تعداد 1139تک پہنچ گئی ہے جبکہ مزید آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ان سنٹرز میں گذشتہ چودہ دنوں کے دوران 435افراد اپنی مدت پوری کرنے کے بعد فارغ ہو چکے ہیں۔ جبکہ ایک مہینے کے دوران مجموعی طور پر 27افراد کے ٹسٹ لئے گئے ہیں جن میں سے 19افراد کے ٹسٹ کے نتائج تاحال نہیں آئے جبکہ آٹھ کیسز کے نتائج منفی آئے ہیں۔ چترال میں ابتدائی دنوں میں ٹسٹ کیلئے مشتبہ افراد کو ایمبولینس کے ذریعے پشاور بھیجا جا رہا تھا اب ایسے مشتبہ افراد کے لعاب دھن (سعاب)کو مخصوص طریقے سے پیک کرکے پشاور بھیجا جاتا ہے جس سے مشتبہ افراد کی مشکلات میں کمی آئی ہے۔ حکومت کی طرف سے بعض کاروباری مراکز کے کھولنے کی اجازت کے بعد حالات معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب صرف کپڑے اورجوتوں کی دکانیں رہ گئی ہیں جنہیں تاحال بند رکھا گیا ہے جن کے مالکان نے حکومت کے اس اقدام کو امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ اُن کو بھی اپنی دکانیں کھول کر کاروبار کرنے کا حق دیا جائے۔