چترال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کی سہولیات نہ ہونے سے مشکلات کا سامنا،مشتبہ مریضوں کو پشاور بھیجا رہا ہے،حکام نوٹس لیں

اشتہارات

چترال(گل حماد فاروقی) چترال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور مریض کو پشاور لیجایا گیا ہے۔ تفصیلات مطابق ایک ہفتہ قبل کراچی سے چترال پہنچنے والے حنیف اللہ نامی نوجوان کو طبیعت خراب ہونے پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے جا یا گیا جہاں کورونا وائرس کے مطلوبہ ٹیسٹ کی سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسے پشاور ریفر کیا گیا۔ مریض کے گھر اور رشتہ داروں کے دو گھرانوں میں بھی پولیس اور چترال لیوی پہرہ دے رہے ہیں متاثرہ گھروں میں لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی ہے۔
سماجی کارکن اقبال مراد جن کا تعلق بالائی چترال کے تحصیل تورکہو سے ہے اور بکر آباد میں عرضہ دراز سے مقیم ہے انہوں نے سوشل میڈیا پر چند تصاویر لگائے ہیں جس میں اقبال مراد خود کھڑا ہے اور اس کے گھر کے باہر لان میں ایک پولیس اور تین چترال لیویز اہلکار کرسیوں پر بیٹھ کر پہرہ دے رہے ہیں۔ اقبال مراد نے سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ بھی لگایا ہے جس میں چترالی زبان میں سارا قصہ بیان کیا ہے۔
ویلج کونسل واسیچ کے سابق نائب ناظم اقبال مراد نے تفصیلات بتاتیہوئے کہ ان کا بھتیجا حنیف اللہ ولد عزت اللہ جو گورنمنٹ ڈگری کالج چترال میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہے، کراچی گیاتھا، 19مارچ کو وہاں سے واپسی پر انہیں زکام، بخار اور درد ہونے لگا،جبکہ میرے بھتیجے کا پہلے حادثہ ہوا تھا جس میں وہ زخمی ہوا تھا اس کے بعد اس دماغی حالت بھی کمزور ہے، اکثر اسے بھولنے کی بیماری لگتی ہے اور اس کے بعد اسے مرگی کا دورہ بھی پڑتا تھا۔
اقبال مراد کے مطابق جب حنیف اللہ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لے جایا گیا جبکہ اس کا والد بھی ہسپتال میں میڈیکل ٹیکنیشن ہے، چترال ہسپتال مین کرونا وائرس کے حوالے سے کسی بھی ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں اسلئے مریض کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور ریفر کیا گیا۔ اقبال مراد نے یہ بھی شکایت کی کہ میرے بھائی کو مریض کے پاس ایمبولنس کے اندر ہی بٹھایا گیا جسے نہ ماسک دیا گیا نہ حفاظتی لباس جبکہ ایمبولنس کے ڈرائیور کے پاس ماسک، اور خصوصی لباس میں وہ ملبوس تھا او ر فرنٹ سیٹ پر کسی اور شحص کو بٹھایا گیا۔
اس کے مطابق مریض کو وہاں سے پولیس ہسپتال لے گئے تاہم ابھی تک اس کا جو ٹیسٹ ہوا ہے اس کا رزلٹ نہیں آیا ہے۔انہوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ مریض کے پاس نہ تو چترال کا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر پوچھنے آیا نہ ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ۔ جبکہ مریض کا والد خود ہسپتال کا عملہ ہے۔ اس کے مطابق مریض کو جب پشاور لے گئے تو وہاں ان کے ساتھ طب کے عملہ نے بہت تعاؤن کیا اور ان کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ کیا۔ اقبال مراد کے مطابق ان کے گھر میں اور میرے برادری کے دو گھرانوں میں بھی ایک پولیس اور تین لیویز اہلکار ڈیوٹی پر مامور ہیں اور ہمار ا باہر آنا جانا یا باہر سے کسی کا ہمارے گھر آنا منع ہے تاکہ ہم کورنٹائن میں رہ کر خود کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی محفوظ رکھ سکے۔
انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایک طرف ملک بھر میں حالات اتنے سنگین ہیں اور حکومت دعوے کررہی ہے کہ ہم اس وبا کے ساتھ جنگی بنیادوں پر نبرد آزما ہوں گے مگر لوئیر اور اپر چترال کے دونوں اضلاع میں کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے کوئی سکینر، لیبارٹری یا کوئی مشنری تک موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چترال سے پشاور جانے میں 10 گھنٹے لگتے ہیں اگر کسی مشتبہ مریض میں خد نحواستہ کورونا کا وائرس موجود ہو تو وہ چترال سے پشاور تک پورا علاقہ متاثر کرسکتا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے اپیل کی ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع میں کم از کم ایک ایک ایسا مرکز صحت ہنگامی بنیادوں پر قائم کیا جائے جہاں کورونا وائریس کی تشخیص سے لیکر علاج معالجے تک تمام سہولیات میسر ہوں۔