پردیسی چترالیوں کے ساتھ ضلعی انتظامیہ (اپر اور لوئرچترال) کا رویہ /تحریر:امیر نایاب

اشتہارات

کہتے ہیں ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے۔ مشکل وقت ہو یا خوشیوں کے لمحات، ماں اپنی لخت جگر کو کبھی بھی اپنے آغوش سے دور نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ جب سے دنیا میں بالخصوص پاکستان میں کورونا کا وباء پھیلا ہے تو والدین کو اپنے بچوں کی اور ہر بچے کو اپنے والدین کی فکر میں لاحق ہو گئی ہے۔ کورونا وائرس کے اس مشکل دور میں ریاست کا خاص کر چترال(لوئر اور اپر) کے ضلعی انتظامیہ کا جو کردار ہے، بس بتانے کا نہیں۔۔۔دلخراش ہے، افسوس ناک ہے۔ حال تو یہ ہے کہ لوئر اور اپر چترال میں دیکھاوے کے قرنطینہ سنٹرز کا شوشا رچایا گیا ہے، اس میں رکھیں گے کس کو؟جب اپنے دونون بارڈر (شندور اور لواری ٹنل) میں سیکورٹی اہلکارتعینات کرکےبند کرکے رکھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا داخلہ بند ہے تو یہ سنٹرز میں جو لوگ ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں؟
خبر تو دردناک ہے، اذیت سے کم نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں راولپنڈی، اسلام آباد اور گلگت میں محصور سینکڑوں نوجوان،بزرگ، تعلیم یا روزگار کی غرض سے مقیم ہیں، اب بے سارو سامانی کی کیفیت میں مبتلا ہیں، انکا کوئی پرسان حال نہیں۔ شہر میں مزدوری بند، ہاسٹلز بند، ہوٹل بند، یونیورسٹیاں بند، عبادت گاہیں بھی بند۔ اب یہ بے چارے جائیں تو کہاں جائیں؟ کب تک کسی کے مہمان بنتے رہیں؟کس کس کے در پے دستک دیتے رہیں گے؟یہ اپنے گھروں کو جانے کے لئے ترستے ہیں۔ انکا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ چترال جہاں اذل سے قیادت کا فقدان رہا ہے، اسکا تسلسل بدقسمتی سے جاری ہے۔ منتخب نمائندے اپنے مزے لوٹ رہے ہیں، جو ہارے ہیں وہ آرام فرما رہے ہیں۔ جب انتخابات کا وقت آن پہنچے گا، سب ہوشیار ہوں گے، شوبازیاں کرتے نظرآئیں گے۔ حقیقی معنوں میں چترال کا کوئی بھی ترجمان تاریخ میں نہیں ملا ہے۔ اگر ایڈمنسٹریشن کی بات کی جائے، انھوں نے دو چار سیکورٹی اہلکار بندوق کے ساتھ داخلی راستوں میں لگا رکھے ہیں۔ اوپر سے دیر پولیس کو نمٹنے کا حکم دیا گیا ہے، باقی سب خوب جانتے ہیں کہ دیر پولیس کیسا نمٹ رہا ہوگا۔ بے سہارے لوگ کریں تو کیا کریں، بس جان بچا کر مایوسی کی حالت میں واپسی یا ادھر ہی خواری ہی کو برداشت کرکے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔
غذر کے نوجوان صحافی فدا علی شاہ غذری کے مطابق، گلگت میں مزدوری کرنے والے پچیس کے قریب چترالی شہریوں کو براستہ شندور چترال داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ تمام مزدور بے سرو سمانی اور پریشانی کی حالت میں واپس پھنڈر پہنچ گئے جہاں پر ایک رات کے لیے انسانیت کے ناطے انکو ٹھہرانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ ان مزدوروں کو تمام طبعی اسکریننگ کے مراحل سے گزارکر چترال سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن انکو گلگت واپس بھیجنے کا حکم صادر کیا گیا۔
یہاں تصویر کا دوسرا رخ گلگت بلتستان حکومت کا رویہ بھی آپ ملاحظہ کیجئے۔ جب پورے پاکستان میں پریشانی کا سماں ہے، گلگت بلتستان کے بہت سارے لوگ ملک کے مختلف شہروں میں تعلیم، روزگار اور کاروبار کے غرض سے مقیم تھے،ان سب کو گلگت بلتستان کی حکومت گلگت اور اپنے گھروں تک پہنچانے میں بھرپور مدد فراہم کر رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے چیف منسٹر نے اپنے میڈیا کوآرڈنیٹر اور وزیر قانون کی یہ ذمہ داری لگائی ہے، تا کہ وہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی، اسلام آباد میں پھنسے ہوئے گلگت بلتستان کے شہریوں کو دوسرے صوبوں کی حکومتوں کیساتھ رابطہ کرکے باحفاظت انکے گھروں تک پہنچانے کے لئے اقدامات کریں۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کا یہ اقدام قابل تعریف ہے۔
میری تمام سیاسی نمائندوں اور ڈسٹرکٹ ایدمنسٹریشن سے اپیل ہے کہ اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں، دونوں طرف سے آنے واے چترالیو ں کو مناسب اسکریننگ کے بعد اپنے گھروں تک رسائی کے لئے انکی مدد کی جائے۔

 

نوٹ: ادارے کا مضمون نویس یا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ کسی بھی مضمون کے مندرجات متعلقہ مضمون نگار کی رائے سمجھی جائیں (ادارہ)